ذہن و دل میں بیٹھ کر ،، تنہا قفس میں جارہے ہیں
رہ نوردان – محبت ایک بس میں جارہے ہیں
دوست اگلا دانہ پانی وہ ہی بہتر جانتا ہے
گھر سے نکلے ہیں تو اس کی دسترس میں جارہے ہیں
آگے قزاقوں کی بستی بھی نکل آئے تو کیا ہے
لوگ اپنے بندوبست – پیش و پس میں جارہے ہیں
لالچی پتے بدن سے جھڑ رہے تھے راستے میں
اور دل خوش تھا کہ ہم ملک – ہوس میں جارہے ہیں
دکھ بھرا قصہ نظر انداز ہونے جا رہا تھا
اس لئے اک اور چشم – داد رس میں جارہے ہیں
عاطف کمال رانا