- Advertisement -

یہ زمیں جو ثقافت میں زرخیز تھی

ایک اردو غزل از منیر جعفری

یہ زمیں جو ثقافت میں زرخیز تھی اس کو کیا ہو گیا
اس کی شرحِ نمو تو بہت تیز تھی اسکو کیا ہو گیا

اب صراحی کے دامن میں کچھ بھی نہیں خامشی کے سوا
میری تاریخ لوگوں سے لبریز تھی اسکو کیا ہو گیا

تیری دنیا کو نزدیک سے دیکھ کر خود پہ افسوس ہے
اسکی تصویر کتنی دل آویز تھی اسکو کیا ہو گیا

تم نے بارود کی تھیلیوں میں جنا تھا نئی نسل کو
آج کہتے ہو یہ امن انگیز تھی اسکو کیا ہو گیا

اسکی خاکِ شفا سے جلا پا گئے کتنے رومی یہاں
یہ زمیں اپنی شوکت میں تبریز تھی اسکو کیا ہو گیا

تجھ بدن کے مناظر کی نظارگی ہے خزاں یافتہ
یہ سیاحت بڑی لطف انگیز تھی اسکو کیا ہو گیا

پکے رنگوں میں رنگی ہوئی عورتیں کتنی نایاب ہیں
یہ محبت جو مشاق رنگریز تھی اسکو کیا ہو گیا

زندگی اپنی ترسیل کا مرحلہ طے نہیں کر سکی
ورنہ رفتار میں موت سے تیز تھی اسکو کیا ہو گیا

پیڑ کی چھال بھی کاٹنے کا جتن کر نہیں پائے گی
میری تلوار فطرت میں خوں ریز تھی اسکو کیا ہو گیا

شخصیت کے تناسب میں بے چارگی بڑھ رہی ہے منیر
یہ کہانی بہت ہی جنوں خیز تھی اسکو کیا ہو گیا

منیر جعفری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از منیر جعفری