حوصلہ چھوڑ گئی راہ گزر آخر کار
رہ گیا ساتھ مسافر کے سفر آخر کار
کوہِ اسود نے بہت راستے روکے لیکن
شرق سے پھوٹ پڑا چشمۂ زر آخر کار
اس کے پتوں پہ لکیریں تھیں ہتھیلی جیسی
مدتوں سبز رہا پیڑ مگر آخر کار
تھم کے رہ جائے گی اک روز لہو کی گردش
ختم ہو جائے گا اندر بھی سفر آخر کار
جس نے اک عمر سے آواز جھلس رکھی تھی
آنکھ تک آ گیا وہ شعلۂ تر آخر کار
زرد ہو جائیں گے پتے بھی گلابوں کی طرح
ایک ہو جائیں گے سب عیب و ہنر آخر کار
دست خوش لمس میسر نہیں آئے گا کبھی
بند رہ جائے گا سیپی میں گہر آخر کار
تم نہیں جانتے اس رنج کو ہم جانتے ہیں
راکھ کر جائے گا اس غم کا اثر آخر کار
ٹوٹ جاتا ہے کسی شخص کے مانند سعود
قیدِ تنہائی میں رہتا ہوا گھر آخر کار
سعود عثمانی