- Advertisement -

مدت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں

میر تقی میر کی ایک غزل

مدت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں
نامے کا اس کی مہر سے اب نام بھی نہیں

ایام ہجر کریے بسر کس امید پر
ملنا انھوں کا صبح نہیں شام بھی نہیں

پروا اسے ہو کاہے کو ناکام گر مروں
اس کام جاں کو مجھ سے تو کچھ کام بھی نہیں

روویں اس اضطراب دلی کو کہاں تلک
دن رات ہم کو ایک دم آرام بھی نہیں

کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میر کے
کچھ طرز ایسی بھی نہیں ایہام بھی نہیں

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل