چپ ہیں پاؤں تو رہ گزر خاموش
وقت کی ہیر کا سفر خاموش
ہجر کی بد نصیب گلیوں میں
چاند پھرتا ہے رات بھر خاموش
کون نکلا ہے عرصۂ دل سے
کچھ دنوں سے ہیں بام و در خاموش
کوئی ہنگامہ بولتا ہی نہیں
شام کے لب پہ چپ سحر خاموش
اُس کی بابت کسی سے کچھ نہ کہوں
رہتی ہوں اس کی منتظر خاموش
یاد کے پُر ملال موسم میں
پھول، خوشبو، ہوا شجر خاموش
ایک کھڑکی سے اجنبی آنکھیں
گفتگو کرتی ہیں مگر خاموش
تم شبانہ تلاش میں کس کی
پھر رہی ہو نگر نگر خاموش
شبانہ یوسف