کوئی ہاتھ رک نہ پائے ترا جام پیتے پیتے
ترا میکدہ نہ ملتا تو کہاں غریب جیتے
ترے میکدے کی جے ہو مرے اس جنوں پہ لعنت
جو ہیں ہوش میں گزارے سبھی دن شبوں پہ لعنت
وہ جو زندگی کہ اے شیخ دھرم میں ہے گزاری
وہ تو ہوش میں بھی رہ کر یوں عدم میں ہے گزاری
جو خلوصِ بادۂِ حسنِ صنم میں ہے گزاری
وہ گزاری ہے فقط ایک بھرم میں ہے گزاری
میں کہ برسوں اک تماشے کا تماشبین ٹھہرا
رہا مبتلائے وحشت کہ نزع زمین ٹھہرا
سہے جبرِ آرزو پھر نہ کوئی یقین ٹھہرا
ہوں شکستگاں سے باغی میں کہ اب کمین ٹھہرا
یہ سوال مغز و دل کو یوں کرے سراب آیا
کہ ہمیشہ زیست کا امتحاں کیوں خراب آیا
ہوئی رتجگوں سے نفرت تو یہ انقلاب آیا
مجھے میکشی کا یوں جاگتے میں ہی خواب آیا
یہ وہ خواب جس کی تعبیر میں میکدے سجائے
تھکے رند دردِ دل سے سبھی بھاگے بھاگے آئے
تری اک نظر نے ساقی وہ سبھی ستم بھلائے
درِ یار سے جو اب تک تھے تلاشِ مے میں کھائے
نہ وہ تشنگی ہے باقی نہ ہی اسکی ہے پچھانت
نہیں یاد گزرے لمحے نہیں خود پہ بھی ملامت
دلِ بے خبر ہے اب تو ترے جام کا ہی پیاسا
ہے شراب ہیرِ رنداں تو ہے جام جام کاسا
نہیں اب کوئی تمنا نہ جنونِ ہوش باقی
لکھے کیوں نہ پھر قصیدے یہ زملؔ بنامِ ساقی
ناصر زملؔ
ماشا اللہ بہت خوب
ساری غزل بہت اچھی ہے.
تری اک نظر نے ساقی وہ سبھی ستم بھلائے
درِ یار سے جو اب تک تھے تلاشِ مے میں کھائے
بہت شکریہ محترمہ سلامت رہیں۔۔!