رہتے تھے ہم وے آٹھ پہر یا تو پاس پاس
یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس
تا لوگ بدگماں نہ ہوں آئے نہ اس کی اور
ہم تو کیا ہے عشق میں دور از قیاس پاس
گر ہی پڑے جو دیکھے ہے تنکا بھی گر کہیں
مایہ نہیں ہے کچھ فلک بے سپاس پاس
شیخ ان لبوں کے بوسے کو اس ریش سے نہ جھک
رکھتا ہے کون آتش سو زندہ گھاس پاس
تم نے تو قدر کی ہے متاع وفا کی خوب
بیچیں گے اب یہ جنس کسو دل شناس پاس
آلودہ کر نہ مستی سے جامے کو جسم کے
ہشیار رہ یہ عاریتی ہے لباس پاس
وحشی ہے میر ربط ہے اس سے خلاف عقل
بیٹھے سو جا کے کیا کوئی ایسے اداس پاس
میر تقی میر