- Advertisement -

عقل داڑھ

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

عقل داڑھ

’’آپ منہ سجائے کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘

’’بھئی دانت میں درد ہو رہا ہے۔ تم تو خواہ مخواہ۔ ‘‘

’’خواہ مخواہ کیا۔ آپ کے دانت میں کبھی درد ہو ہی نہیں سکتا‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’آپ بھول کیوں جاتے ہیں کہ آپ کے دانت مصنوعی ہیں۔ جو اصلی تھے وہ تو کبھی کے رخصت ہو چکے ہیں‘‘

لیکن بیگم بھولتی تم ہو۔ میرے بیس دانتوں میں صرف نو دانت مصنوعی ہیں باقی اصلی اور میرے اپنے ہیں۔ اگر تمھیں میری بات پر یقین نہ ہو تو میرا منہ کھول کر اچھی طرح معائنہ کر لو‘‘

’’مجھے یقین آگیا۔ مجھے آپ کی ہر بات پر یقین آجاتا ہے۔ پرسوں آپ نے مجھے یقین دلایا کہ آپ سینمانھیں گئے تھے تو میں مان گئی پر آپ کے کوٹ کی جیب میں ٹکٹ پڑا تھا۔ ‘‘

’’وہ کسی اور دن کا ہو گا۔ میرا مطلب ہے آج سے کوئی دو ڈھائی مہینے پہلے کا جب میں کسی دوست کے ساتھ پکچر دیکھنے چلا گیا ہوں گا۔ ورنہ تم جانتی ہو، مجھے فلموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تم تو خیر ہر فلم دیکھتی ہو‘‘

’’خاک!۔ مجھے فرصت ہی کہاں ہوتی ہے‘‘

’’فرصت ہی فرصت ہے۔ بچیوں کو اسکول بھیجا۔ پھر سارا دن تم کیا کرتی ہو۔ نوکر ان کو اسکول سے لے آتا ہے۔ کھانا کھلا دیتا ہے۔ تم یا تو اپنی کسی سہیلی یا رشتے دار کے ہاں چلی جاتی ہو یا میٹنی شو دیکھنے۔ شام کو پھر دورہ پڑتا ہے اور چلی جاتی ہو پھر کوئی اور فلم دیکھنے‘‘

’’یہ سفید جھوٹ ہے‘‘

’’یہ سفید ہے نہ کالا۔ حقیقت ہے!‘‘

’’آپ کے دانت کا درد بھی کیا حقیقت ہے؟۔ چٹاخ پٹاخ باتیں کررہے ہیں‘‘

سب سے بڑا درد تو تم ہو۔ اس کے سامنے دانت کا درد کیا حقیقت رکھتا ہے‘‘

تو آپ نے جس طرح اپنے دانت نکلوائے تھے اسی طرح مجھے بھی نکال باہر پھینکیے‘‘

’’مجھ میں اتنی ہمت نہیں۔ اس کے لیے بڑی جرأت کی ضرورت ہے‘‘

’’آپ جرأت کی بات نہ کریں۔ آپ کو مفت میں ایک نوکرانی مل گئی ہے جو دن رات آپ کی خدمت کرتی ہے اسے آپ برطرف کیسے کرسکتے ہیں‘‘

غضب خدا کا۔ تم نے دن رات میری کیا خدمت کی ہے۔ پچھلے مہینے، مجھے جب نمونیہ ہو گیا تھا تو تم مجھے بیماری کی حالت ہی میں چھوڑ کر سیالکوٹ چلی گئی تھیں‘‘

’’وہ تو بالکل جدابات ہے‘‘

’’جدا بات کیا ہے؟‘‘

’’مجھے، آپ کو معلوم ہے اپنی عزیز ترین سہیلی نے بُلایا تھا کہ اُس کی بہن کی شادی ہو رہی ہے‘‘

’’اور یہاں جو میری بربادی ہو رہی تھی‘‘

’’آپ اچھے بھلے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے پوچھ لیا تھا۔ اس نے میری تشفی کر دی تھی کہ تشویش کی کوئی ضرورت نہیں۔ نمونیہ کا اٹیک کوئی اتنا سیریس نہیں۔ پھر پنسلین کے ٹیکے دیے جارہے ہیں۔ انشاء اللہ دو ایک روز میں تندرست ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’تم سیالکوٹ میں کتنے دن رہیں‘‘

’’کوئی دس پندرہ دن‘‘

’’اس دوران میں تم نے مجھے کوئی خط لکھا؟۔ میری خیریت کے متعلق پوچھا؟‘‘

’’اتنی فرصت ہی نہیں تھی کہ آپ کو ایک سطر بھی لکھ سکتی‘‘

’’لیکن تم نے اپنی والدہ مکرمہ کو چار خط لکھے۔ !‘‘

’’وہ تو بہت ضروری تھے‘‘

’’میں نے سب پڑھے ہیں‘‘

’’آپ نے کیوں پڑھے؟۔ یہ بہت بد تمیزی ہے‘‘

’’یہ بد تمیزی میں نے نہیں کی تمہاری والدہ مکرمہ نے مجھے خود ان کو پڑھنے کے لیے کہا۔ اور مجھے معلوم ہوا کہ وہ کس قدر ضروری تھے‘‘

’’کیا ضروری تھے‘‘

’’بہت ضروری تھے۔ اس لیے کہ خاوند کے پھیپھڑوں کے مقابلے میں دلہن کے جہیز کی تفصیلات بہت اہم تھیں۔ اس کے بالوں کی افشاں۔ اس کے گالوں پر لگایا گیا غازہ۔ اس کے ہونٹوں کی سُرخی۔ اس کی زربفت کی قمیص۔ اور جانے کیا کیا۔ یہ تمام اطلاعیں پہچانا واقعی اشد ضروری تھا ورنہ دنیا کے تمام کاروبار رُک جاتے۔ چاند اور سورج کی گردش بند ہو جاتی۔ دلہن کے گھونگھٹ کے متعلق اگر تم نہ لکھتیں کہ وہ کس طرح بار بار جھنجھلا کر اُٹھا دیتی تھی تو میرا خیال ہے یہ ساری دنیا ایک بہت بڑا گھونگھٹ بن جاتی‘‘

’’آج آپ بہت بھونڈی شاعری کررہے ہیں‘‘

’’بجا ہے۔ تمہاری موجودگی میں اگر غالبؔ مرحوم بھی ہوتے تو وہ اسی قسم کی شاعری کرتے‘‘

’’آپ میری توہین کررہے ہیں‘‘

’’تم نالش کر دو۔ مقدمہ دائر کر دو۔ ‘‘

’’میں ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہتی‘‘

’’تو پھر کن چکروں میں پڑنا چاہتی ہو۔ مجھے بتا دو‘‘

’’آپ سے جو میری شادی ہوئی تو اس سے بڑا چکر اور کون ہوسکتا ہے۔ میرے بس میں ہوا تو اس میں سے نکل بھاگوں۔ ‘‘

’’تمہارے بس میں کیا کچھ نہیں۔ تم چاہو تو آج ہی اس چکر سے نکل سکتی ہو‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’یہ مجھے معلوم نہیں۔ تم ماشاء اللہ عقل مند ہو۔ کوئی نہ کوئی رستہ نکال لو تاکہ یہ روز روز کی بک بک اور جھک جھک ختم ہو۔ ‘‘

’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود یہ چاہتے ہیں کہ مجھے نکال باہر کریں‘‘

’’لاحول ولا۔ میں خود باہر نکالے جانے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

’’کہاں رہیں گے آپ؟‘‘

’’کہیں بھی رہوں۔ کسی دوست کے ہاں کچھ دیر ٹھہر جاؤں گا۔ یا شاید کسی ہوٹل میں چلا جاؤں۔ اکیلی جان ہو گی۔ میں تو بھئی فٹ پاتھ پر بھی سو کر گزارہ کر سکتا ہوں۔ کپڑے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ اُن کو کسی لانڈری کے حوالے کر دُوں گا۔ وہاں وہ اس گھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ شیشے کی الماریوں میں سجے ہوں گے۔ جب گئے ایک سوٹ نکلوایا اُس کی دُھلائی یا ڈرائی کلینگ کے پیسے ادا کیے اور خراماں خراماں۔ ‘‘

’’خراماں خراماں، کہاں گئے؟‘‘

’’کہیں بھی۔ لارنس گارڈن ہے۔ سنیما ہیں۔ ریستوران ہیں۔ بس جہاں جی چاہا چلے گئے۔ کوئی پابندی تو نہیں ہو گی اُس وقت‘‘

’’یہاں میں نے آپ پر کون سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں؟۔ کھلے بندوں جو چاہے کرتے ہیں۔ میں نے آپ کو کبھی ٹوکا ہے؟‘‘

’’ٹوکا تو نہیں ہے۔ لیکن میرا ہر بار ایسا جھٹکا کیا ہے کہ مہینوں طبیعت صاف رہی‘‘

’’اگر طبیعت صاف رہے تو اس میں کیا قباحت ہے۔ طبیعت ہمیشہ صاف رہنی چاہیے۔ ‘‘

’’مانتا ہوں کہ طبیعت ہمیشہ صاف رہنی چاہیے۔ مگر طبیعت صاف کرنے والے کو اتنا خیال ضرور مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ ضرورت سے زیادہ صاف نہ ہو جائے۔ ‘‘

’’آپ کے دانت میں درد ہو رہا تھا؟‘‘

’’وہ درد اب دل میں چلا گیا ہے۔ ‘‘

’’کیسے۔ ‘‘

’’آپ کی گفتگو ہر قسم کے کرشمے کرسکتی ہے۔ داڑھ میں شدت کا درد تھا لیکن آپ خدا معلوم کیوں تشریف لے آئیں اور مجھ سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا کہ وہ داڑھ کا درد دل میں منتقل ہو گیا۔

’’میں یہ صرف پوچھنے آئی تھی کہ آپ کا منہ کیوں سوجا ہوا ہے۔ بس اس اتنی بات کا آپ نے بتنگڑ بنا دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کس کھوپڑی کے انسان ہیں۔ ‘‘

’’کھوپڑی تو مری ویسی ہے جیسی تمہاری یا دوسرے انسانوں کی۔ تمھیں اس میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے‘‘

’’فرق، ساخت کے متعلق کچھ محسوس نہیں ہوتا لیکن میں یہ وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ کی کھوپڑی میں یقیناً کوئی نقص ہے‘‘

’’کس قسم کا؟‘‘

’’میں قسم کہاں بتا سکتی ہوں۔ کسی ڈاکٹر سے پوچھیے‘‘

’’پوچھ لوں گا۔ لیکن اب میرے دل میں درد ہو رہا ہے‘‘

’’یہ سب جھوٹ ہے۔ آپ کا دل مضبوط ہے‘‘

’’تمھیں کیسے معلوم ہوا‘‘

’’آج سے دو برس پہلے جب آپ ہسپتال میں داخل ہوئے تھے تو آپ کا ایکس رے لیا گیا تھا۔ ‘‘

مجھے معلوم نہیں‘‘

’’آپ کو اتنا ہوش ہی کہاں تھا۔ مجھے آپ کوئی نرس سمجھتے تھے۔ عجیب عجیب باتیں کرتے تھے۔ ‘‘

’’بیماری میں ہر خطا معاف کر دینی چاہیے۔ جب تم کہتی ہو کہ میں غشی کے عالم میں تھا تو بتاؤ میں صحیح باتیں کیسے کرسکتا تھا۔

’’میں آپ کے دل کے متعلق کہہ رہی تھی۔ ہسپتال میں جب آپ کے پانچ چھ ایکس رے لیے گئے تو۔ ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ یہ شخص صرف اپنے مضبوط دل کی وجہ سے جی رہا ہے۔ اس کے گردے کمزور ہیں۔ اس کی انتڑیوں میں ورم ہے۔ اس کا جگر خراب ہے۔ لیکن۔ ‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘

’’انھوں نے یہ کہا تھا کہ نہیں مرے گا، اس لیے کے اس کے پھیپھڑے اور دل صحیح حالت میں ہیں‘‘

’’دل میں تو خیر تم بس رہی ہو۔ پھیپھڑوں میں معلوم نہیں کون رہتا ہے‘‘

’’رہتی ہو گی، آپ کی کوئی۔ ‘‘

’’کون؟۔ ‘‘

’’میں کیا جانوں‘‘

’’خدا کی قسم تمہارے سوا میں نے کسی اور عورت کو آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ‘‘

’’آنکھ جھکا کر دیکھا ہو گا۔ ‘‘

’’وہ تو خیر، دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ مگر کبھی بُرے خیال سے نہیں۔ بس ایک نظر دیکھا اور چل دئیے۔ ‘‘

’’لیکن ایک نظر دیکھنا کیا بہت ضروری ہے۔ شریعت میں لکھا ہے؟‘‘

’’اس بحث کو چھوڑو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھ سے کہنے کیا آئی تھیں۔ تمہاری عادت ہے کہ اپنا مطلب بیان کرنے سے پہلے تم جھگڑا ضرور شروع کر دیا کرتی ہو۔ ‘‘

’’مجھے آپ سے کچھ نہیں کہنا تھا۔ ‘‘

’’تو آپ تشریف لے جائیے۔ مجھے دفتر کے چند کام کرنے ہیں‘‘

’’میں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘

’’تو پھر تم خاموش بیٹھی رہو۔ میں کام ختم کر لوں تو جو تمھیں اول جلول بکنا ہے بک لینا۔ میری داڑھ میں شدت کا درد ہو رہا ہے‘‘

’’میں کس لیے آپ کے پاس آئی۔ ‘‘

’’مجھے کیا معلوم‘‘

’’میری عقل داڑھ نکل رہی ہے؟‘‘

’’خدا کا شکر ہے۔ تم کو اب کچھ عقل تو آ جائے گی‘‘

’’بہت درد ہو رہاہے‘‘

’’کوئی بات نہیں۔ اس درد ہی سے عقل آرہی ہے‘‘

سعادت حسن منٹو ۲۱؍ اکتوبر۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو افسانہ از ڈاکٹر نور ظہیر