ہوئی جس سبب ہم سے تم سے جدائی، نہ تم ہم سے پوچھو نہ ہم تم سے پوچھیں
بیاں یہ تو کر دے گی ساری خدائی، نہ تم ہم سے پوچھو نہ ہم تم سے پوچھیں
یہ مشہور ہے دل سے ہے راہ دل کو، کیا کرتا ہے دل ہی آگاہ دل کو
وہ دل ہی سے پوچھو جو ہے دل میں آئی، نہ تم ہم سے پوچھو نہ ہم تم سے پوچھیں
ہمیں چاہو تم اور ہم تم کو چاہیں، اِدھر تم نباہو، اُدھر ہم نباہیں
اسی سے ہے رسم درہ آشنائی، نہ تم ہم سے پوچھو نہ ہم تم سے پوچھیں
پہیلی سی اک رمزِ مہر و وفا ہے، اسے پوچھتا ہے تو دل پوچھتا ہے
نہیں جاتی منہ سے یہ ہرگز بتائی، نہ تم ہم سے پوچھو نہ ہم تم سے پوچھیں
بلا سے کوئی گر بھلا یا بُرا ہو، ہمیں کیا غرض اور تمہیں کام کیا ہے
ظفرؔ اب کسی کی بُرائی بھلائی، نہ تم ہم سے پوچھو نہ ہم تم سے پوچھیں