آج ہم مسائل کی دلدل میں بری طرح پھنس گئے ، معاشی حالات ہوں یا معاشرتی مسائل نے ہمیں آن گھیرا۔ یہ کسی کا نہیں ، اپنا بویا بیج ہے۔ انسان جب طاقت میں ہوتا سب بھول جاتا ۔ اس کی عکاسی شگوفۂ محبت میں مصنف نے یوں کی ہے:ْْمحبت میں ایک عدل و داد کہ ملک جس سے آباد ہوتا ہے، رعایا کا دل شاد ہوتا ہے، اس میں بے مثل لاثانی تھا۔ فی الحقیقت زینت بخش سریر سلطانی تھا۔ گردن کشانِ دہر غاشیۂ اطاعت بر دوش رہتے تھے۔ سطوت و صولت سے باختہ سب کے ہوش رہتے تھے۔ فوج ظفر موج عدد اور شمار سے افزوں، ہزراہا گنج رشک خزانۂ قارون، وزیر امیر عقیل امانت دار دیانت شعار، پسینے پر لہو بہانے والے جان نثار ندیم فہیم ادیب غریب فہمیدہ، طبیب عجیب سنجیدہ، زمانے کے چیدہ، امورات جہان نیرنگی گردونِ گردان سے فارغ البال، لاولدی کے غم چھٹ، رنج نہ ملال، اکثر سلطنت کی ضرورت سے فرصت پا کے تخلیہ میں وہ ندیم تجربہ رسیدہ سیاہ روزگار اور وہ حکیم جہاں دیدہ فلاطون شعار جو تھے سب کو بلا کے ان سے گفتگو رہتی تھی کہ دنیا مقام گذران ہے، ہر شخص یہاں رواں دواں ہے۔ بجز ذاتِ پروردگار یہاں کے لیل و نہار کو ایک ڈھنگ پر دم بھر ثبات و قرار نہیں۔ یہاں کی ہر شے سے پیدا ہے کہ پائدار نہیں۔ خدا نے ساز و سامانِ سلطنت، اسبابِ شوکت و حشمت سب کچھ عطا کیا مگر وارث اس کا جو پیدا نہ ہوا تو ہم نے یہ سب جمع کر کے کیا کیا۔ جو کچھ ہے، ہم تو اس کے چھوڑنے کی حسرت قبر میں لے جائیں گے، ہر شے کے واسطے ایک وقت معین مقرر ہے، غیب کی کس کو خبر ہے۔ کسی کو وقت سے پیش اور مقدر سے بیش کچھ ملا نہیں، حاکم کا گِلا نہیں۔ یہ سن کے چپ ہو رہتا۔ گو دل کا نہ ملال جاتا، کج بحثی نہ کرتا، ٹال جاتا۔
ایک روز نصف شب گذری، اس کی آنکھ کھل گئی، وہی خیال بہرحال رہتا تھا، صدمے سہتا تھا۔ الجھن میں نیند نہ آئی، دفعۃً زیادہ جو گھبرایا، سلطنت سے منہ کو موڑا، سرد آہ بھر کر گرم رفتار ہوا، شہر کو خالی چھوڑا، بے توشہ و زادِ راہ وہ بادشاہ جنگل کی طرف چل نکلا۔ شب تیرہ و تار، رفیق نہ غمگسار۔ اندھیری رات، میدان کی سائیساں، عقل گم، ہوش حواس پرّاں، نہ سواری کا اہتمام، نہ لوگوں کی دھوم دھام، نہ صدائے نقارہ، نہ ندائے بوق و کوس، پیادہ پا یکہ و تنہا بصد حسرت و افسوس بُری نوبت سے کئی کوس طے کیے کہ فلک جفا پسند پُر گزند نے وہ خراب حال دکھانے کو شمع مومی و کافوری کے فراق میں جلانے کو مشعلِ ماہ آسمان اول پر روشن کی۔ اب جو کوئی ٹھوکر کھائے تو پستی و بلندی نظر آئے۔ پہاڑ دیکھا سر بفلک کشیدہ، چوٹی اُس کی آسمان سے ملی، ہر قسم کا درخت خود رو پھولا پھلا تھا۔ جنگل تک پھولوں کی بو باس سے مہک رہا تھا، جس کو جینے سے یاس ہو، اس کو مرنے کا کب وسواس ہو۔ بادشاہ کو نہ درندے کا ڈر تھا نہ گزندہ سے خوف و خطر تھا۔ مردانہ وار قدم ہمت بڑھاتا تھا، بے تکلف اُس نشیب و فراز میں چڑھا جاتا تھا۔ جب تھکتا تو کسی پتھر پر بیٹھ جاتا، دم لے کے آگے قدم اٹھاتا۔ القصہ بہزار خرابی راہ طے کی، اوپر پہنچا۔ اس عرصے میں صبح کا سپیدا چمکا۔ جانوران خوش الحان بذکر یزدان زمزمہ سنج اور نغمہ پرداز ہوئے، درِ اجابت حاجت مندوں پر باز ہوئے اور سجادہ نشینِ چرخ اول نے جانمازِ انجم لپیٹی۔ و الفجر کی صدا آئی۔ زاہد فلک چارم چونکا، اپنی چمک دمک دکھائی، جہاں تک نگاہ گئی گلہائے رنگا رنگ نظر آئے، چشمہ ہائے سرد و شیریں جا بجا جاری پائے۔ اس نے وضو کر کے نماز صبح پڑھی پھر دستِ دعا بدرگاہ خالقِ ارض و سما بلند کر کےبہت رویا، کہا “اے پروردگار! کل تو وہ شان و شوکت تھی، آج عالم تنہائی اور یہ سامان ہے۔ تو قادر و توانا علیم و دانا ہے، اگر مژدۂ تمنا پاؤں گا تو مُنہ لوگوں کو دکھاؤں گا، وگرنہ اس پہاڑ سے نیچے گر کے جان دوں گا، دربدر بہکتا نہ پھروں گا”۔
یہ تو اس شغل میں تھا، دفعۃً ایک مرد بزرگ سن رسیدہ گرم سردِ زمانہ دیدہ نظر آئے۔ عمامہ سر پر، عبا زیب دوش و بر، داہنے ہاتھ میں کنٹھا بائیں میں عصا، زیتون کا وظیفہ پڑھتا قریب آیا۔ بادشاہ اٹھ کر کھڑا ہوا، سلام کیا۔ اس نے جواب دے کر کہا “اے شہر یار باوقار! اتنے سے امتحان میں اُس کی رحمت کی وسعت کو بھول گئے، ہاتھ پاؤں پھول گئے”۔ آذر شاہ سمجھا کہ گو اس کا مسکن کوہ وجبال ہے مگر یہ برگزیدہ مقرر صاحب کمال ہے۔ لجاجت اور سماجت سے اپنی گذشتہ داستان مشروحاً بیان کی۔ اس مقبول ذو الجلال شیریں مقال نے فرمایا کہ یہ امور تقدیر ہیں، اضطراب اس میں بیجا ہے۔ بابا دنیا کا معاملہ بہت ٹیڑھا ہے۔ حکومت، تدبیر، عقل، مال و زر، فوج لشکر یہاں سب کچھ بیکار ہے۔ حاکم احکم الحاکمین ہے، اس کا اختیار ہے؛ بہر حال اسی سے التجا کرو۔ محتاجوں کی حاجت بر لاؤ، بھوکے کو کھانا، ننگے کو کپڑے پہناؤ۔ سوال کسی کا نہ رد کرو۔ دعا مانگنے میں کد کرو، وہ ارحم الراحمین مشہور ہے۔
اس کلام سے بادشاہ کی یاس امید سے بدل گئی، طبیعت سنبھل گئی۔ پوچھا کہ آپ کون ہیں، جگہ یہ کیا ہے، بود و باش کیونکر ہے، معاش کیونکر ہے، تنہا ہو یا شریک اور کوئی بندہ خدا ہے۔ دن رات کس شغل میں بسر ہوتی ہے، شامِ تنہا کس طرح سحر ہوتی ہے۔ وہ مرد پیر با دل دلگیر بیٹھ گیا، کہا “اے سلطان ذی شان! یہ بڑی داستان ہے مگر عبرت کرنے کا بیان ہے۔ اور تو مضطر ہے، تجھ سے کہنا بہتر ہے۔ بگوش ہوش سُن اے والا نژاد! بندہ بھی آدم زاد ہے۔ یہ جو موسم جوانی عالم شباب ہوتا ہے بہت خراب ہوتا ہے۔ انسان بے خوف و خطر ہوتا ہے۔ نہ خدا سے شرم نہ حاکم کا ڈر ہوتا ہے۔ اُن دنوں میرا پیشہ قزّاقی کا تھا، انکار خدا کی رزّاقی کا تھا۔ ہاتھ پاؤں میں یہ طاقت تھی کہ ہزار جوان جرّار کا یکہ و تنہا مقابلہ کرتا تھا۔ قتل اور غارت پر اوقات تھی۔ بہ تمنائے زر و مال بہرحال دن رات کشت و خون میں اوقات بسر ہوتی تھی۔ نفع دنیا میں عقبیٰ کا ضرر تھا۔ مجھ کو کچھ خبر نہ ہوتی تھی۔ اتفاقاتِ زمانہ ایک پری پیکر نوجوان با لباس پُر زر، سترہ اٹھارہ برس کا سن، شباب کے دن، برق دم گھوڑا، طلائی مرصع کار ساز ویراق، ہتھیار کی قسم سے فقط قرولی کمر میں، خود غرقِ دریائے جواہر مگر اُس غزال چشم کے شیر سے بُرے تیور۔ میں تو ہزار خونخوار کا تنہا شکار کرتا تھا، وہ جو نمود ہوا تو نظر میں حلوائے بے دود ہوا۔ نرم آواز سے مَیں نے کہا یہ سب ساز و سامان اے نادان یہاں رکھ دے اور گھر کو سیدھا پھر جا۔ تیرے حال پر رحم آتا ہے، اس صورت کے انسان کو کون ستاتا ہے۔ اسے نہ خوف ہوا نہ ہراس ہوا، نہ مجھ سے ایذا پہنچنے کا وسواس ہوا۔ بکشادہ پیشانی میرے پاس آ کے جواب دیا کہ اے شخص تو بھی بشر ہے، بندۂ خدا ہے مگر یہ کام جو تو نے اختیار کیا ہے اس میں شر ہے، بہت بُرا ہے۔ درِ توبہ باز ہے، آقا بندہ نواز ہے۔ اس فعل لغو سے منفعل ہو، توبہ کر۔ میرے خیال سے درگذر کہ میں ستم رسیدہ یکہ و تنہا جریدہ ہوں، مُورِدِ رنج و محن غریب الوطن، یار و دیار سے جدا، اللہ اعلم ہے کس مصیبت میں مبتلا ہوں۔ا ور جو تجھ کو اپنے زور و طاقت کا گھمنڈ ہے تو بیجا ہے کہ ہر فرعون کے واسطے ایک موسیٰ خلق میں خلق ہوا ہے.
عابدضمیر ہاشمی