ملتان سر جڑی دلیرانہ محبت
تحریر:مجیداحمدجائی ۔ ملتان شریف
ملتان سر جڑی دلیرانہ محبت
دربار سج چکا تھا اور دربار میں راجاءوں اور راجکماروں کا ہجوم سا لگا تھا ۔ سب کی نظریں ،اُس کی منتظر تھیں ،جس کے لیے آج یہ دربار سجایا گیا تھا ۔ اُس نے اس دربار میں آئے ہوئے راجکماروں میں سے کسی ایک راج کمار کا انتخاب کر نا تھا ۔
جی ہاں انتخاب ۔ ۔ ۔ وہ راجہ دریودھن کی لڑکی تھی ۔ باپ نے اُسے بڑے ناز و نعم سے پالا تھا ۔ اب وہ جوان ہو چکی تھی ۔ جب اولاد جوان ہو جائے تو والدین کو، ان کے فرض سے سبکدوش ہونے کی فکر ستانے لگتی ہے ۔
راجہ دریودھن نے بھی اپنی بیٹی کی شادی کرنی تھی ۔ یہ شادی آج کی شادیوں سے بالکل مختلف تھی ۔ راجہ دریودھن نے فیصلہ کیا کہ میری بیٹی اپنے خاوند کا انتخاب خود کرے گی ۔ اس لئے اُس نے یعنی راجہ دریودھن نے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لئے ،شوہر کا انتخاب کرنے کے لئے دربار میں سوئمبر قائم کیا تھا ۔
سوئمبر میں شرکت کے لئے دُور دُور کے راجاءوں اور راجکماروں کو دعوت دی گئی ۔ اب دربار میں رونق تھی ،سوئمبر قائم ہو چکا تھا اورنظریں راجکماری کی متلاشی تھیں ۔ دریودھن کا دربار راجاءوں اور راج کماروں سے جگمگا اُٹھا تھا ۔ سب کے دِل مچل رہے تھے ۔ آنکھیں ،اُس کا دیدار کرنے کو بے تاب تھیں ۔ ہر راجکمار کے دِل میں حسرت تھی ۔ ۔ ۔ کہ راجکماری میرا انتخاب کرے ۔ ۔ ۔ لب خاموش تھے ۔ نظریں اُس مہ جبیں کی منتظر تھیں اور دل میں بے شمار خواہشات،آنکھوں میں سہانے خواب سجے تھے ۔ چند لمحوں بعد اُس نے آکر ،اپنے لیے شوہر کا انتخاب کرنا تھا ۔ وہ جس کا انتخاب کرتی ،اُس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال دیتی اور یوں وہ اس کا خاوند قرار دیا جاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پورے دربار میں اُس کا انتظار کیا جا رہا تھا ۔ وہ ابھی نہیں آئی تھی ۔ کہنے والے تو کہتے ہیں انتظار بہت بُرا ہوتا ہے ۔ انتظار ۔ ۔ ۔ چاہے کسی محبوب کاہو یا کسی کے آنے کا ۔ انتظار اگر محبوب کا ہو اور حسرت ہو کہ محبوب میرے گلے میں ہارڈال کر ،مجھے اپنا لے ۔ ۔ ۔ مجھے اپنا محبوب بنا لے ۔ ۔ ۔ کیا کیفیت ہو ں گی ۔ دل کیسے مچلتا ہوگا ۔ آنکھیں کیسے خواب سجاتی ہوں گی ۔ ;
ایک امتحان تھا اور سب کے دل مچل رہے تھے ۔ سبھی خود کو قسمت کا شہنشاہ تصور کر رہے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں فیصلہ ہو جانا تھا ۔ ۔ ۔ اور یہی کچھ لمحے ،بڑے مشکل سے گزر رہے تھے ۔ یہ اذیت بھرے لمحے سب پہ بھاری تھے ۔ محبوب ایک تھا اور چاہنے والوں کا ہجوم لگا تھا ۔ اُس نے تو صرف کسی ایک کا ہونا تھا ۔ جس کی وہ ہو جاتی وہ خوش قسمت ہو تا ۔ ۔ ۔ ۔ اُس کا دل آسمان کو چھو ئے گا اور باقی کی آنکھیں سمندر بن جائیں گی ۔ ایسا ہی کچھ اُس وقت ہو نے والا تھا ۔
وہ بھی اس سوئمبر میں شریک تھا ۔ اُس کا نام شامب تھا ۔ وہ کرشن کا بیٹا تھا اور دُور سے چل کر آیا تھا ۔ اُس کے دل میں خواہش تھی کہ راجکماری میری ہی ہو ۔ قد کاٹھ کا اچھا تھا اور بڑا بہادر نوجوان تھا ۔ اُس کی بہادری کے چرچے تھے ۔
وہ خیالوں کی وادی میں گم تھا کہ راجکماری سوئمبر میں جلوہ گِرہوئی ۔ سب کے چہرے دمکنے لگے ۔
راجکماری بڑی خوبصورت تھی ۔ وہ مسکراتی ہوئی آ رہی تھی اور اُس کے ہاتھوں میں پھولوں کا ہار تھا ۔ سب کی نظریں اُس کی طرف اُٹھ گئیں تھیں ۔ سبھی نے اپنے اپنے دل تھام لیے تھے ۔ دربار میں سبھی دیدے پھاڑے کھڑے تھے ۔ وہ تھی بھی اتنی خوبصورت،حسین وجمیل ۔ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہیں ۔ وہ چلی آرہی تھی اور چند لمحوں بعد ،اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے والی تھی ۔ وہ اپنا ہم سفر چُننے والی تھی ۔ کیسا منظر تھا ۔ کیسا انتظار تھا ۔
شامب بھی لائن میں لگا تھا اور پہلی ہی نظر میں اُس کا دیوانہ ہوا جا رہا تھا ۔ وُہ اُسے کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ اُسے ہر حال میں حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ راج کماری کسی اور کی ہو ۔ اُس کے ذہن میں جنگ جاری تھی ۔ پہلی نظر کیا پڑی ،اس کے بعد وہ اپنا دِل ہار گیا
شامب خیالوں میں غوطہ زن تھا کہ اگر راجکماری نے مجھے پسند نہ کیا اور پھولوں کا ہار کسی اور کے گلے میں ڈال دیا تو مجھے بڑی خفت کا سامنا کر نا ہو گا ۔ اِس طرح میں اتنی حسین و جمیل راجکماری سے محروم ہو جاءوں گا ۔ میں وہ لمحے کیسے برداشت کروں گا ۔ میری آنکھیں ایسے لمحے کیسے دیکھ سکتی ہیں ۔
راج کماری چلتے چلتے راجکماروں کی لگی لائن کے قریب آ گئی تھی ۔ اُس کی نظریں ادھر اُدھر کا جائزہ لے رہی تھیں ۔ قریب تھا کہ وہ پھولوں کا ہار کسی راجکمار کے گلے میں ڈال کر تجسس ختم کردیتی اور اپنا فیصلہ سنا دیتی ۔ شامب بڑی پُھرتی اور تیزی سے آگے بڑھا ۔ پل بھر میں اُس نے راجکماری کو بھرے دربار میں سے اُٹھا لیا اور سب دیکھتے ہی رہ گئے ۔ شامب ،راجکماری کو اُٹھاتے ہی چار گھوڑوں کی رتھ میں ڈال کر دربارسے بھاگ نکلا ۔
دریودھن کی بڑی بدنامی تھی کہ اُس کے دربار سے ،اُس کی ہی بیٹی کو ایک شخص اُٹھا کر بھاگ گیا تھا ۔ دربار میں سبھی راجے اور راجکمار حیران اور ششدر کھڑے تھے ۔
راجکماری کورءوں کے خاندان سے تھی ۔ بھرے دربار میں سے اس طرح راجکماری کا اُٹھ جانا بڑی ندامت تھی ۔ کورءوں کو غیرت آئی اور وہ اپنی اپنی رتھوں پر سوار ہو کر شامب کو گرفتار کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ شامب آگے آگے تھا اور کورءوں کا قافلہ اُس کے پیچھے پیچھے تھا ۔ بڑی تگ ود کے بعد آخر کورءوں نے شامب کو راستے ہی میں جا گھیرا ۔ وہ بھی کہاں ہار ماننے والا تھا ۔
کورءوں کے اس قافلہ میں کرن نامی نوجوان بڑا بہادر تھا ۔ اُس نے شامب کو للکارا ۔ شامب بھی دلیر تھا اور دلیری کا مظاہر ہ کرکے ہی تو آیا تھا ۔ اُس نے بھی مقابلہ کے لئے کرن کو آواز دی ۔ پھر کیا ،مقابلہ شروع ہوا اور کرن نے چار تیر چلائے ۔ شامب تیر اندازی میں کمال رکھتا تھا اورمقابلے کرنے کے تمام گُر جانتا تھا ۔ شامب نے بہادری سے کِرن کے چاروں تیروں کو ،اپنے تیروں سے کاٹ ڈالا ۔ اب تیر چلانے کی باری شامب کی تھی ۔ شامب نے تیر چلائے اور کرن کی رتھ کے چاروں گھوڑے زخمی کر دئیے اور وہ زمین پر تڑپنے لگے ۔
کرِن بھی کہاں ہار ماننے والا تھا ۔ اُس نے بھی بھر پور مقابلہ کرتے ہوئے ہمت نہ ہاری اور برابر تیر چلاتا رہا ۔ اُس نے بھی اپنے تیروں سے شامب کے چاروں گھوڑوں کو زخمی کر دیا ۔ مقابلہ جاری تھا کہ کورءوں کے باقی لوگوں نے گھیرا مزید تنگ کر دیا اور یوں بالآخر شامب کو گرفتار کر لیا گیا ۔
شامب کا باپ کرشن قبیلہ جادو بنسی خاندان سے تھا اور کورءوسورج بنسی خاندان سے تھے ۔ ان دونوں خاندانوں میں اکثر عداوت رہتی تھی ۔ کورءو اکثر غالب رہتے تھے اور غرور و تکبّر میں بھرے رہتے تھے ۔
دریودھن نے بھرے دربار میں متکبرانہ انداز میں کہا کہ ہم نے ہمیشہ جادو بنسی خاندان کی لڑکیاں لی ہیں ۔ اُن کی اتنی جرات کہ ہماری لڑکی لے جائیں ۔ ان میں اتنی طاقت آگئی کہ ہمارے مقابلے میں آئیں ۔ دریودھن کا غصہ آسمان کو چُھو رہا تھا ۔ اُدھر اُس کے خاندان والوں نے شامب کو رسیوں میں جکڑ کر اپنے ساتھ ہستناپور(دلی )لے آئے اور قلعہ میں قید کر دیا ۔
نارومنی!جو ہر طرف کی خبریں ایک دوسروں کو پہنچایا کرتا تھا ،کرشن کے شہر دوارکاپہنچا ۔ اُس نے شامب کے باپ کرشن کو ،شامب کی گرفتاری کی ساری کہانی ایف سے لے کر ی تک سنائی ۔ یہ سب سنتے ہی کرشن غصے سے بُلبلا اُٹھا ۔ دل میں بجھتی آگ پھر سے بھمبر کی صورت اختیار کر گئی ۔ کرشن بھی اپنے علاقے کا راجا تھا ،اُس نے فوراًبہت بڑا اجتماع جمع کیا اور جادوبنسیوں کو غیرت دلائی ۔ وہ سورج بنسیوں سے بدلہ لینا چاہتا تھا ۔ اُسے ایک لمحہ بھی قرار نہیں آ رہا تھا ۔ کرشن نے دریودھن کی اِس حرکت پر سزا دینے کے لیے حملہ کرنے کی تجویز پیش کی ۔
شری بلدیوجی جو بہت بڑے رشی تھے ۔ وہ بھی اس اجتماع میں آگئے ۔ پورا اجتماع غصے اور جلا ل میں تھا ۔ شری بلد یوجی نے جب سارا ماجرا سنا تو جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا ۔ اُس نے بڑے معتبرانہ انداز میں اجتماع کو سمجھایا ۔ شری بلدیوجی نے کہا ہمارے کورءوں سے تعلقات اچھے رہے ہیں ۔ ہ میں ذرا سنبھل کر قدم اُٹھانا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آخر اُس نے مجمع کا غصہ ٹھنڈا کر دیا اور سمجھا بُوجھا کر اِس بات پر آمادہ کر لیا کہ میں خود جاتا ہوں اور صلح کی بات چیت کرکے شامب کو چھڑا لاتا ہوں ۔ اگر بفرض اُنہوں نے نہ مانا اور انکار کر دیا تو مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ میں اکیلا ہی کافی ہوں ۔ ۔
سارے اجتماع میں سے شری بلد یوجی نے جادو بنسیوں کی ایک جماعت اپنے ساتھ لی اور سیدھا ہستنا پورا(دہلی )کا رُخ کیا ۔ ۔ ۔
کررءوں کو جب معلوم ہوا کہ شری بلد یوجی بھاری جمعیت کے ساتھ آ رہے ہیں تو کورءوبھی جمع ہوئے اور آپس میں مشورہ کرکے بلد یوجی کا استقبال کے لئے آگے بڑھے ۔ ۔ ۔
اُدھر وہ آرہے تھے اور اِدھر کورءو جا رہے تھے ۔ دونوں سیت نگر میں جہاں بہت بڑا مندرتھا وہاں ملے ۔ کورءوں نے جادو بنسیوں کے ساتھ ساتھ شری بلدیوجی کا خیر مقدم کیا اور ان کے قیام کا انتظام کیا ۔
شری بلد یوجی چونکہ بہت بڑا رشی تھا ۔ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ شری بلد یوجی آئے ہیں تو لوگ جوق در جوق اُن سے ملنے کے لیے آنے لگے ۔
مجمع جمع تھا ۔ بلد یوجی نے ان سے کہا ۔ کرشن کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کو شامب کو ،کورءوں نے گرفتار کر لیا ۔ وہ جادو بنسیوں کی بہت بڑی تعداد لے کر ہستنا پور(دہلی)کا رُخ کرنے لگا تھا ۔ میں نے کرشن کو روک دیا ۔ میں نے کرشن اور اجتماع کو کہا کہ کورءوں سے ہمارے تعلقات نہایت اچھے ہیں ۔ ایک عرصہ سے دوستی چلی آ رہی ہے ۔ پچھلی دُشمنی ختم ہو چکی ہے اورپھر رشتہ داری بھی ہے ۔ اس لئے پھر سے دُشمنی بڑھانی اچھی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ کرشن بھی کوئی معمولی راجہ نہیں اور شامب اُس کا لڑکا ہے اور جامونتی کے بطن سے ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شری بلدیوجی اُن کو سمجھا رہا تھا اوردریودھن کو ناگوار گزرہا تھا اور اُس نے منہ پھیر لیا ،جیسے وہ کچھ سن ہی نہیں رہا ۔ ۔ جب شری بلد یوجی نے اپنی تقریر ختم کی تو دریودھن نے کہا ۔ ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بلد یوجی کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔ اگر کرشن سلطنت کے مالک ہو گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھرئے سوئمبر میں سے ہماری لڑکی اٹھا کر لے جائیں ۔ ۔ ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ہم سے معافی مانگتے ۔ ۔ ۔ اچھی شرافت ہے کہ جس کو جتنا زیادہ منہ لگائیں ،وہی سر چڑھنے لگ جاتا ہے ۔
یہ تمھارا قصور نہیں ہے بلکہ ہمارے بڑوں کا قصور ہے جنہوں نے جادو بنسیوں کو زیادہ منہ لگایا تھا جو آج یہ نوبت آئی ہے ۔ ۔ دریودھن غصے میں لال پیلا ہو کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا ۔
شری بلد یوجی پہلے تو دم سادھے بٹھا رہا اور دل ہی دل میں کہنے لگا کہ بات بڑھ چکی ہے ،اگر اس وقت ہمت سے کام نہ لیا گیا تو نتیجہ توقع کے خلاف برآمد ہو گا ۔
کچھ لمحے خاموش گزر گئے پھر شری بلد یوجی نے بھیکم اور دھرت راشڑسے کہا دریودھن غصے میں تھا لیکن یہاں سے اُٹھ کر کیوں چلا گیا ۔ ۔ اُس نے جو کچھ کیا ہے اُس کا جواب بھی کم از کم سن لیتا ۔ ۔ میرا خیال ہے اُسے بُلایا جائے ۔ ۔ بھیکم اور دھرت راشٹر ،دریودھن کو بلا لائے ۔ بات پھر سے شروع ہوئی ۔ سب دم سادھے بیٹھے تھے ۔ شری بلد یوجی نے دریودھن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
دریودھن عقل مند انسان ہمیشہ معقول طریقہ سے بات کرتے ہیں ۔ تم تو نہایت سمجھدار تھے پھر کیا ہوا ۔ ذرا تحمل اور سوچ و بچار سے کام لیتے لیکن تم نے تو بڑے غصے کا اظہارکیا لیکن میں نے تمھارے غصے کے باوجود ،بڑی نرمی سے بات کی تھی ۔
تمھارا غروراور تکبرانہ لہجہ مجھے اچھا نہیں لگا ۔ میں نے تو جادوبنسیوں کو ٹھنڈا کرکے خود اس جھگڑے کو مٹانے کی کوشش کی ورنہ کرشن تو جنگ کرنے کے لئے تمام جادو بنسیوں کو اکٹھا کر چکا تھا ۔ میں نے کرشن کو بڑی مشکل سے سمجھایا کہ ،کورءوایسے نہیں ہیں لیکن تم نے ہماری کوئی عزت نہیں کی ۔
تمھیں معلوم ہے کہ کرشن مہاراج کون ہیں – ان کی ذات ایسی پاک ہے کہ چار وید اُس کی تعریف کرتے ہیں ۔ برما ،وشنو،شیوان کے قدموں کی طرف نظر رکھتے ہیں ،لکشمی ان کے چرن چھوتی ہے ۔ ۔ ۔ تم بتاءو ! تمھارے کو رءوں میں کون ایسی شخصیت کا مالک ہے جو تمھیں شامب کے اس فعل نے عقیدت پر اُبھارا ہے ۔
دریودھن ،شری بلد یوجی کی باتیں غور سے سن رہا تھا ۔ سارا مجمع خاموش بیٹھا تھا اچانک شری بلد یوجی غصے میں آگئے اور نیزے کی نوک پر سارے ہستنا پور (دہلی)کو اُٹھا لیا ۔ عنقریب تھا کہ اُسے گنگا میں غرق کر دیتے ۔ ۔ ۔ ۔ ہر طرف شور برپا ہوا ۔ پناہ ۔ ۔ پناہ ۔ پناہ ۔ ہائے ،ہائے کا شوربرپا ہونے لگا ۔ بھیکم اور دھرت راشٹراورپانڈووغیرہ شری بلد یوجی کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے اور معافی مانگنے لگے ۔ ہم معافی چاہتے ہیں ۔ دریودھن کی سزا سارے ہستنا پور کو نہ دیجئے ۔ لوگوں کی آہ بکار پر شری بلد یوجی کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور آخر اُس نے معاف کر دیا ۔
دریودھن اور پانڈوں نے مل کر شامب کو بمعہ لکشمی کے شری بلد یوجی کی خدمت میں حاضر کیا ۔ یوں دریودھن نے اپنی لڑکی کی شادی ،وہیں پر شامب کے ساتھ کر دی اور بڑے اہتمام کے ساتھ رُخصت کیا ۔ شامب بڑی شان و شوکت کے ساتھ دوارکا میں ،اپنے باپ کرشن کے پاس پہنچا ۔ یوں یہ معاملہ ختم ہوگیا لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اصل کہانی تو یہاں سے شروع ہو تی ہے ۔ یہاں سے جانے کے بعد شامب ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا ۔ ایک عرصہ بعد کسی رشی کی بددعا سے کوڑھ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا ۔ کئی علاج کرائے مگر آرام نہ آیا ۔ شامب بے چینی اور بے قراری میں اپنا علاقہ چھوڑ کر مترون (ملتان)کے درختوں کے سائے میں آکر ایک زمانہ لیٹا رہا ۔ یہاں سے شامب کو صحت حاصل ہوئی ۔ یہ علاقہ ایک عرصہ سے غیر آباد چلا آ رہا تھا ۔ شامب نے صحت یاب ہونے کے بعدمترون موجودہ ملتان کو آباد کرنا شروع کیا ۔ اُس کے آباد کرنے کی وجہ سے اِس علاقہ کا نام ،اُس کی نسبت سے ہی شامب پور مشہور ہو گیا ۔ شامب پور ملتان کے قدیم ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس ساری کہانی کے پیچھے یہی ایک کہانی تھی ۔ شامب کی محبت دلیرانہ تھی ،یا یہ کہانی جھوٹ پر مبنی ہے ۔ کچھ بھی ہو لیکن ہندوءوں کی قدیم اور مشہور کتاب وریدک میں یہ کہانی موجود ہے ۔ ملتان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ ہر تاریخی کتب میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ ۔ ۔
تحریر:مجیداحمدجائی ۔ ملتان شریف
حوالہ جات
نقش ملتان جلد اوّل ۔ علامہ عیتق فکری
تاریخ ملتان:اکرام الحق
دیکھ لیا ملتان ۔ ڈاکٹر زاہد علی واسطی