- Advertisement -

سڑک – جو خون اگلتی ہے

عربی تحریر: ماہر طلبہ - اردو ترجمہ: ابو فہد ندوی

فوجی افسرنے جب پیغام پڑھا توحیرتوںکے سمندر میں غرق ہوگیا۔ پیغام اور پیغام بر کو تشویش زدہ نظروں سے دیکھا۔”یہ آدمی توبالکل تازہ دم ہے ، نہ لباس پر کچھ غبار اور نہ ہی جسم پر تکان کے کچھ آثار“اس نے پیغام بر کوایک بار پھر سر سے پاؤں تک دیکھا۔
اس کے من میں ہر پل بڑھتی ہوئی حیرتیں شکوک وشبہات میں بدلنے لگیں” سڑک خون اگل رہی ہے“ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا !!۔ یقینا یہ آدمی پاگل ہے۔ اس نے دھیرے سے بیل بجائی اور ہمیشہ سے دروازے پر کھڑا ہوا فوجی اندر داخل ہوا۔
”اسے یہاں سے لے جاﺅ“
اس نے رسیور اٹھایااور ذہنی امراض کے اسپتال کا نمبر ڈائل کیاپیغام برکچھ بھی سمجھے بغیرفوجی کے ساتھ چل دیا ”سڑک خون اگل رہی ہے“ وہ زیر لب مسکرایاپھر یکا یک اس پر ہنسی کا دورہ پڑگیا ”پاگل“
”کیا ہوا سر!؟؟“ دروازے پرہمیشہ سے کھڑا ہوافوجی تیزی سے اس کی طرف لپکا۔
” اپنی پشت پردروازہ بند کردو۔“
پھروہ استراحت کے لئے چلا گیا مجنونانہ پیغام کو بھلانے کی کوشش کی۔ رفتہ رفتہ اس کے حواس بحال ہونے لگے پھر اچانک فو ن بج اٹھا اور تادیر بجتا رہااس نے بے دلی کے ساتھ رسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے بولنے والا جلدی جلدی بول رہا تھا اور خون اگلنے والی سڑک سے متعلق اپنی کہانی سنا رہا تھا۔ ”کیا وہ پاگل بھاگ گیا؟“ اس کا ذہن فوری طور پر بے وقوف سے پیغام بر کی طرف گیا اس نے ایک بار پھر بیل بجائی۔
”وہ آدمی کہاں ہے جس کو تو یہاں سے لے گیا تھا؟“ فوجی کے اندر داخل ہوتے ہی اس نے سوال کیا۔
”وہ نظر بند ہے “
اس کی حیرتوں کی ہانڈی میں جیسے ابال آگیاہاتھ کے اشارے سے اس کو جانے کے لیے کہا۔ اور پھر سے فون پر بات کرنے لگا۔ دوسری طرف سے بولنے والا کوئی ذی حیثیت آدمی تھا۔ ”یہ غیر ممکن ہے کہ دوسری طرف سے بات کرنے والا وہی پاگل ہو“اس نے رسیور رکھ دیا اور خود سے جائے واردات کا معائینہ کرنے کا ارادہ کیا تاکہ اس مجنونانہ پیغام کی بچشم خود تصدیق کرسکے۔وہ فورا ًہی نکل کھڑا ہوا ہمیشہ سے دروازے پر کھڑے ہوئے فوجی نے سیلیوٹ مارا۔ اس کو حکم دیا کہ جلدی سے فوجیوں گاڑی میں بھراجائےفوجی نے ایک بار پھر سیلیوٹ مارااور حکم کی بجا آوری کے لئے دوڑپڑا۔
جب وہ بیرونی دروازے پر پہونچا تو اس نے دیکھا کہ گاڑی فوجیوں کو لئے تیار کھڑی ہے۔فوجی گاڑی کے ڈرائیور نے اسے دیکھتے ہی سیلیوٹ مارا۔ مگر وہ اس سے اور اس کے سیلیوٹ سے بالکل بے پرواہ تھا۔ اسے تو خون اگلنے والی سڑک پر جانے کی جلدی تھی۔ ڈرائیو ر چلنے کے لئے تیار تھا اس نے اپنی پیٹھ پیچھے سے کھسر پسرکی آوازیںسنیں ۔گاڑی میں بیٹھے ہوئے فوجیوں کو زور سے ڈانٹاچہ مے گویاں یک لخت بند ہوگئیں
گاڑی چلنے لگی تھوڑی دیر بعدگاڑی کی رفتار کم ہوگئی اور پھر مسافرگاڑیوں کے ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کے درمیان گاڑی بالکل رک گئی فوجیوں کو حکم دیا کہ وہ دوڑکر جائیں اور ٹریفک جام ہونے کی وجہ دریافت کریں حکم کی بجا آوری کے لیے کئی فوجیوں نے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی اس اثنا میں کئی بوجھل لمحے گزر گئے۔ وہ خیالوں میں کھوگیا۔ شاندار آفس، آرام دہ کرسی، تازہ ہوا اور دروازے پر مستعد کھڑا ہوا فوجی وہ حکم کرتا ہے اور وہ الف لیلہ کے جن کی طرح چشم زدن میں حکم بجالاتا ہے اس کے ذہن کے پردے پر مختلف سین گردش کرنے لگے واپس لوٹنے والے فوجی نے سیلیوٹ مارا اور زمین پر اس کے جوتے کی رگڑ کی آوازسے اس کا خیال ٹوٹ گیا۔
” ٹریفک جام کی کیا وجہ ہے؟“
فوجی پر عجیب وغریب حالت طاری تھی وہ کچھ بھی نہیں سن سکا اس نے پھر پوچھا فوجی نے سراٹھایا مگر اس سے کوئی جواب نہ بن پایااور بدستور گم صم کھڑا اپنے پیروں تلے زمین کو تکتا رہا”کیا کہہ رہے ہو؟“اس باروہ اس کے بالکل قریب آکر چیخا۔
”بولتے کیوں نہیں؟“
فوجی اور بھی زیادہ حیرت زدہ ہوگیا اور اس کے منہ سے مردہ الفاظ نکلے۔
”سڑک خون اگل رہی ہے۔“
تمہاری مت ماری گئی ہے۔ لعنت ہے تمہاری عقلوں پر ایسی کون سی سڑک ہے جو خون اگل رہی ہے۔ کیا تم بالکل بدھو ہو؟!!
اس کی لعن طعن نے فوجی کومزید حیرت زدہ کردیامگر وہ بدستور خاموش رہاگم صم اور بے حس وحرکت اس کو جتنی بھی صلواتیں یاد تھیں،اپنے سامنے کھڑے گم صم فوجی کے سرپر اگل دیں۔
”جو کچھ تونے وہاں دیکھا ، تفصیل سے بیان کر“
فوجی کی ابلتی ہوئی بے حس وحرکت آنکھیں فضا میں معلق تھیں اسے لگا کہ یہ مرچکا ہے
گاڑی وہیں چھوڑکرآگے بڑھنے لگاتا کہ پتہ لگا سکے کہ ٹریفک کس وجہ سے جام ہے راہ میں اپنے فوجیوںکو واپس لوٹتے ہوئے پایاوہ سب حیرتوں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھےاس کا شک کافور ہوگیااس نے تقریبا چیختے ہوئے سب کو رکنے کے لیے کہاگاڑی میں موجود دیگر فوجیوں کو بھی جمع کیاان سب کو جلد سے جلد پوری طرح تیار رہنے کاحکم دیاتمام فوجیوں نے اسلحے نکال لئے اورچہرے کی طرف شیشے لگے ہوئے ہیلمیٹ پہن لئے
مسافر گاڑیوں میں بیٹھے لوگ ، جنگی لباس پہنے ہوئے فوجیوں کو تحیر کے ساتھ دیکھ رہے تھے اوران کے لیے احسان مندی کے جذبات سے لبریز کلمات کہہ رہے تھےیہاں تک کہ وہ گاڑیوںکی سب سے آگے والی قطارتک پہونچ گیافوجیوں کے ایک دستہ نے راستہ جام کر رکھا تھا،انہوں نے اپنے جسموں سے پیچھے رکی ہوئی گاڑیوں اور سامنے موج مارتی ہوئی سڑک کے درمیان قدرے فاصلہ بنا رکھا تھاوہ اونچی آواز کے ساتھ چلا رہا تھااورفوجیوں کے درمیان سے جگہ بناتا ہواآگے بڑھ رہا تھایہاں تک کہ سب سے آگے نکل آیاچند ثانیے تک ادھر ادھر غور سے دیکھتا رہا اور پھرزورسے چلایا” اے شیطانو !یہ سب کیا ہورہا ہے؟!!“سڑک پر خون بہہ رہا تھا”سڑک خون اگل رہی ہے“خون کے رنگ نے اس کے اندرون میں عجیب وغریب احساس جگا دیاایک انجانا خوف اس کے پورے وجود پر طاری ہوگیااسباق ، ہدایات اور احکام، جن کا تجربہ اس نے اپنے کام کے دوران کیا تھا سب کے مختلف رنگ ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوگئےپھر وہ پوری طاقت سے چلایافوجیوں کی طرف سے اس بار بھی مکمل سکوت تھااس نے الرٹ ہوجانے کا حکم دیافوجی خون کے دریا میں جو ان کو چاروں طرف سے گھیر ے میں لے رہا تھا بے خطر کود پڑےان کے ہاتھ سرعت اور مہارت کے ساتھ کام کررہے تھےمگر خون اور زیادہ ابلنے لگافوجیوںکو لگا کہ وہ خون میں پوری طرح لت پت ہیں اور اس میں ڈوبے جار ہے ہیںجیسے وہ زخمی ہوں اور خون ان سے بہہ رہا ہو
آفیسرخون اگلتی ہوئی سڑک چھوڑ کر بھاگ کھڑاہوا اور تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف دوڑاڈرائیور کودفترچلنے کی ہدایت کی ہمیشہ سے دروازے پر کھڑے ہوئے فوجی نے سیلیوٹ مارااس کو حکم دیاکہ تمام فوجی گاڑی میں بیٹھ جائیںدروازے پر ہمیشہ سے کھڑے رہنے والا فوجی حکم بجالانے کے لیے دوڑ پڑا
دفتر میںاپنی کرسی پر بیٹھااور مشاہدات تحریر کرنے لگاباہر سے آنے والی چیخ وپکار کی آوازیں اس کے کان کے پردے پھاڑے دے رہی تھیں اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا خون جس نے سڑک کو بھر دیا تھا، دفتر کے احاطہ کی طرف بڑھ رہا تھاوہ بجلی کی سی سرعت سے دفترسے نکل گیافوجیوں کو ادھر ادھر پھیل جانے کا حکم دیا فوجیوں کی حالت دیکھ کر گھبراگیا دفتر کے احاطے میںخون کے فوارے پھوٹ رہے تھے وہ تیزی سے فون کی طرف دوڑا تاکہ کہیں سے مدد مانگ سکےمگر کہیںکوئی سننے والا اور مدد کو آنے والا نہیں تھااسے محسوس ہوا جیسے وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ گیا ہےجبکہ خون اس کے دفتر کو چاروںطرف سے گھیرے میں لے رہا تھایہاں تک کہ خون نے اس کو نگل لیا

ابو فہد ندوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو میں ایک مسکراتی ہوئی غزل