- Advertisement -

مدیانور کا بڑا تیندوا

مدیانور کا بڑا تیندوا از کیینتھ

مدیانور کا بڑا تیندوا
نیلگری کے نیلے پہاڑوں سے اترنے والے دریائے مویار کے جنوبی کنارے پر واقع زرخیز زمینوں پر مدیانور کا چھوٹا سا دیہات ہے۔ یہ جگہ بیلی ریرینگن پہاڑیوں کے سلسلے کے جنوب میں ہے۔
یہ چھوٹی وادی انتہائی پرسکون ہے اور یہاں کے باسی چین کی نیند سوتے تھے۔ دوسرے سرے پر موجود پہاڑوں کی وجہ سے یہاں بارشیں ہمیشہ ہوتی تھیں۔ زمین بہت زرخیز تھی۔ موسم استوائی نوعیت کا ہے اور رات کو سرد ہو جاتا ہے کیونکہ پہاڑوں سے سرد ہوا نیچے کو چلتی ہے۔
یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور چند لوگ مویشی بھی چراتے ہیں۔ پاس پڑوس کے جنگل میں صبح سویرے مویشی چرائی کے لیے بھیج دیے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کے دودھ سے گھی بناتے ہیں جو کھانے پکانے کے لیے پورے ہندوستان میں عام استعمال ہوتا ہے۔ مٹی کے تیل کے ڈبوں میں یہ گھی بھر کر گھاٹ یعنی پہاڑوں پر جانے والی سڑک کو روانہ کیا جاتا ہے جہاں آگے چل کر یہ میسور سے ستیامنگلم کو جانے والی بڑی سڑک سے ڈیم بیم کی وادی میں جا ملتا ہے۔ یہاں پہنچ کر گھی کے کنستر کبھی بیل گاڑی تو کبھی لاری پر لاد دیے جاتے ہیں اور آگے چل کر انہیں فروخت کیا جاتا ہے۔ ان کی فروخت کے اہم مراکز میسور، ستیامنگلم کے علاوہ گوبی چٹی پلیم ہیں۔
سو یہاں کے باشندے خوشحال اور مطمئن ہیں۔ یہاں چند ہی مسافر آتے ہیں کہ یہ یہاں کے راستے پر گاڑی نہیں چل سکتی۔
کبھی کبھار ریوڑوں پر شیر یا تیندوے حملہ آور ہوتے اور کبھی کسانوں کی فصلیں ہاتھی اجاڑ دیتے۔ جنگلی سور اور ہرن بھی فصلوں کو نقصان پہنچاتے رہتے تھے مگر انہیں معمولی نقصان اور قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا جاتا تھا۔
یہ بڑا تیندوا اپنی جسامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس تیندوے کے بارے مشہور تھا کہ وہ دریائے مویار کی دوسری جانب انیکتی یا سیگور یا پھر نیلگری کے پہاڑوں سے آیا ہوگا۔ اس نے پہلے پہل گاؤں کے مویشیوں پر حملے شروع کیے اور شیر کے انداز میں ہی جانوروں کی گردن توڑتا تھا سو کچھ عرصہ کے لیے لوگوں نے تیندوے کی بجائے اسے شیر سمجھا۔
پھر جوں جوں اس کا حوصلہ بڑھتا گیا، تیندوے نے میرے دوست ہفی ہیل سٹون کی زمینوں پر اس کی بہترین دودھیل گایوں پر حملے شروع کر دیے۔ یہ زمینیں مویار وادی میں تھیں اور بہترین شمار ہوتی تھیں کہ ان کا مالک بھی بہترین انتظامی صلاحیتوں کا حامل تھا۔ پیشے کے اعتبار سے بہترین انجینیئرتھا اور ذہین موجد ہونے کے علاوہ اس نے بہت ساری نئی ایجادات کرنے کے علاوہ پہلے سے موجود آلات کو بھی بہتر بنایا۔ اس کے علاوہ ہفی پیدائشی شکاری بھی تھا۔ اسے جنگل اور جنگلی جانوروں سے لگاؤ تھا اورآتشیں اسلحے کے استعمال کا بھی ماہر تھا۔ ذہانت اور جنگلی حیات سے لگاؤ کا نتیجہ مویار وادی رینچ نکلا جو اس نے گھنے جنگل سے زمین صاف کر کے پیدا کیا۔
پہلے پہل اس نے عظیم الجثہ درخت کٹوا کر زمین صاف کی۔ ہفی نے ان درختوں کو جلا کر کوئلہ بنایا اور پھر انہیں دور کے قصبوں کو بیچا اور اینٹیں، پتھر، سیمنٹ وغیرہ وہیں سے منگوایا۔ اس کے علاوہ بڑھئی منگوا کر ہفی نے ان سے جنگلات کی اچھی لکڑی سے جدید ساخت کی عمارت بنوائی۔ پون چکی اور بیٹری چارجر کی مدد سے اس نے گھر میں بجلی لگائی اور روشنی، ریفریجریٹر اور دیگر برقی آلات لگائے۔ پھر اس نے زرعی مشینیں منگوائیں اور تھوڑے عرصے میں جنگل کے وسط میں رینچ بن گئی۔
ہفی کی دلچسپی کاروبار میں تھی اور اکثر ملک سے باہر جاتا رہتا تھا۔ بعض اوقات اس کا سفر چند ہفتے کا ہوتا تو بعض اوقات مہینوں باہر رہتا۔ مندرجہ ذیل کہانی اس کی طویل غیر حاضری سے متعلق ہے۔ ہفی نے مجھے اپنے فارم کا کسی وقت بھی چکر لگانے کی اجازت دی ہوئی تھی اور کہا تھا کہ اس کی عدم موجودگی میں اس کے مویشیوں کا خیال رکھوں۔ ایک روز ہفی کے فارم کے نگران ورگیز کا خط ملا کہ ایک بڑے تیندوے نے ہفی کا بہترین السیشن کتا مار ڈالا ہے اور میں اس بارے کچھ کروں۔
ان دنوں میں بہت مصروف تھا اور اگلے دو ہفتے کے دوران وقت نکالنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ ورگیز کا خط چونکہ دیہاتی ڈاکخانے سے ہو کر آیا تھا، سو اسے پہنچنے میں چھ روز لگے۔ تاہم میرے بیٹے ڈونلڈ نے یہ کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ چونکہ میری کار سٹڈ بیکر کا ایک ایکسل ٹوٹا ہوا تھا اور نیا بمبئی سے آیا نہیں تھا، سو ڈونلڈ نے اپنے دوست سے اس کی کا رادھار مانگی۔
یہاں سے میں ڈونلڈ کے الفاظ میں آگے کے واقعات بیان کرتا ہوں کیونکہ میں نے ان میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ میرا کام محض چند مشوروں تک محدود رہا تھا۔
‘جب میرے والد نے مجھے مدیانور جانے کا کہا تو پہلا مسئلہ گاڑی کا تھا کیونکہ ان کی کار خراب تھی۔ سو میں نے اپنے دوست رستم دودھ والا سے کار ادھار مانگنے کا سوچا۔ رستم میرا سکول کے زمانے کا دوست ہے اور اس کے پاس ہمیشہ تین یا چار کاریں موجود رہتی ہیں۔ سو تھوڑی بہت گپ شپ کرنے کے بعد میں نے کار مانگ لی۔ پھر اگلے چار گھنٹوں میں میں نے شکار سے متعلق سارا سامان جمع کیا اور اپنے والد سے ان کے شیر کے شکار کا تعویذ بھی لیا جو ان کے پرانے دوست اور جنگل کے باسی بدھیا نے انہیں دیا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ میرےو الد اس تعویذ کے بارے بات نہیں کرتے کہ لوگ ان کا مذاق اڑائیں گے مگر مجھے علم ہے کہ وہ اس تعویذ پر اندھا اعتقاد رکھتے ہیں۔ یہ تعویذ بانس کے چھوٹے سے ٹکڑے میں ہے اور اس کو ہاتھی کی دم کے بالوں کی رسی سے باندھا گیا تھا۔ اس کے اندر کیا ہے، میں نہیں جانتا۔ تاہم یہ سب کچھ گلے میں لٹکایا جاتا ہے مگر والد اسے اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔
نکلنے سے قبل میں نے ایک اور دوست کو ساتھ لے جانے کا سوچا جس کا نام سیڈرک بون ہے اور اچھا فوٹوگرافر ہے۔ سیڈرک فوراً تیار ہو گیا اور جلد ہی ہم تینوں روانہ ہو گئے۔ میرے پاس میری اعشاریہ 423 بور کی ماؤزر رائفل تھی جو والد کی پرانی اعشاریہ 405 ونچسٹر سے کہیں طاقتور ہے۔ انہیں بھی اس بارے علم ہے مگر وہ عادتاً مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے اعشاریہ 3006 کی سپرنگ فیلڈ رائفل بھی متبادل کے طو رپر اٹھا لی تاکہ ہرن وغیرہ کا شکار کر سکوں۔ والد ہمیشہ ہرنوں کے شکار کی مخالفت کرتے ہیں مگر میں سنی ان سنی کر دیتا ہوں۔ تاہم جب وہ ساتھ ہوں تو ظاہر ہے کہ ایسے شکار سے گریز کرنا پڑتا ہے، تاہم جب وہ ساتھ نہ ہوں تو پھر سب چلتا ہے۔
مدیانور کے راستے پر آخری سترہ میل راستہ بہت خراب ہے اور ہمیں وہاں پہنچنے میں کل آٹھ گھنٹے لگے۔ ورگیز ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا مگر والد کی بجائے مجھے دیکھ کر اسے کچھ مایوسی ہوئی۔ یہ عجیب مسئلہ ہے کہ جوانوں پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا اور ہمیں غیرذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی وہ بھی جوان تھے۔
بہرطور، ورگیز نے بتایا کہ گاؤں کے مویشیوں کے علاوہ ہیل سٹون کی ایک گائے بھی تین روز قبل تیندوے کا شکار ہوئی ہے۔ فوری مسئلہ گارے کے لیے کچھ بچھڑے خریدنے کا تھا۔ تاہم اس بارے رستم موجود تھا۔
رستم کے بارے کچھ بات ہو جائے۔ اس کی عمر 22 سال ہے اور وہ پارسی ہے جو ہندوستان میں آباد قدیم ایرانی قوم ہے۔ اس کا تعلق بہت امیر گھرانے سے ہے اور بمبئی میں اس کی لاکھوں کی جائیداد ہے اور اس کی روز کی آمدنی میری سالانہ آمدنی سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ رستم کے والد کامیاب تاجر ہیں اور ان کی آمدنی رستم سے کہیں زیادہ ہے۔ والد کو شکار کا شوق ہے اور وہ اپنے بیٹے کو بہت پسند کرتے ہیں مگر بعض اوقات اسے شکا رپر نہیں جانے دیتے۔ جب بھی ایسا ہو تو رستم اور میں اپنے والدوں کی ملاقات کرا دیتے ہیں اور گھنٹہ دو گپ شپ کے بعد ہمیں اجازت مل جاتی ہے۔
خیر، واپس اپنی کہانی کو لوٹتے ہیں۔ رستم نے چار بچھڑے خریدے اور انہیں تیندوے کی حالیہ وارداتوں کے مقامات کے پاس مناسب جگہوں پر بندھوا دیا۔ ان میں سے پہلا ہیل سٹون کی زمینوں اور جنگل کی حد پر باندھا گیا۔ دوسرے کو ہم نے ایک چھوٹی جھیل کے کنارے گھنے بانس کے جنگل کے پاس اور پہلے بچھڑے سے چوتھائی میلد ور باندھا۔ تیسرے کو ہم نے مدیانور گاؤں کے پاس باندھا اور چوتھے کو مدیانور جانے والے راستے پر باندھا۔ والد کے پس ہمیشہ ان کی اپنی مچان ہوتی ہے مگر ورگیز نے ہمیں ہیل سٹون کی مچان دے دی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ گارا ہونے کے بعد میں مچان باندھوں گا۔
ہم نے چاروں بچھڑوں کو پچھلی ٹانگوں میں رسی باندھ کر کھونٹے سے باندھ دیا کیونکہ گردن میں رسی باندھنا غلطی ہوتی ہے۔ بعض اوقات تیندوے اور اکثر شیر ایسے جانور پر حملہ نہیں کرتے جس کے گلے سے رسی لٹک رہی ہو۔ چونکہ وہ شکار کے لیے گردن دبوچتے ہیں، سو گردن میں بندھی رسی ان کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
آخری وقت میں مجھے ورگیز نے بتایا کہ بنگلے کے پاس ہی دو روز قبل شیر کی آواز سنائی دی تھی۔ سو بنگلے کے نزدیک والے بچھڑے کے لیے میں نے رسی کو زنجیر سے بدل دیا۔اگر شیر حملہ کرتا تو رسی کو توڑ کر لے جاتا۔ چونکہ زنجیر صرف ایک ہی تھی، سو باقی تینوں بچھڑے رسی سے باندھنے پڑے۔
رستم اس رات مدیانور کے کھیتوں میں سور کے شکار پر جانا چاہتا تھا مگر میں نے اسے روک دیا کہ تیندوا ڈر جائے گا۔ اگلی صبح پتہ چلا کہ چاروں گارے سلامت موجود ہیں۔ مگر شکار میں صبر سے کام لینا پڑتا ہے اور والد کی نصیحت میں نے رستم کو سنائی کہ ایک دو مزید روز لگ سکتے ہیں۔ تیسری رات بنگلے کے پاس والے بچھڑے کو ایک بڑے تیندوے نے ہلاک کیا۔ اسی رات شیر نے جھیل کے پاس والے بچھڑے کو مارا۔
اب مسئلہ پیدا ہو گیا۔ میں نے خود سے کہا۔ ‘تیندوے کو گولی مارو، میں شیر کا شکار کروں گا۔‘تاہم مسئلہ یہ تھا کہ رستم نے مجھے یاد دلایا کہ یہاں ہمارے آنے کا واحد مقصد تیندوے کی ہلاکت تھا جس نے ہیل سٹون کی گائے اور کتے کو مارا تھا۔ جبکہ شیر نے ہیل سٹون کے جانوروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ میرےو الد بھی یہی کچھ کہتے اور مجھے علم تھا کہ رستم کی بات درست ہے۔ مگر میں نے شیر کے شکار کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا تھا۔ سو میں نے اسے کہا تم تیندوے کا شکار کرو اور میں شیر کا۔ مگر رستم اپنی بات پر اڑا رہا اور مجھے تیندوے پر آمادہ ہونا پڑا۔
سیڈرک نے میرے ساتھ آنے کا فیصلہ کیا کہ رستم کی بجائے اسے مجھ پر زیادہ بھروسہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رستم اتنا شور مچاتا ہے کہ شیر آنے سے قبل ہی بھاگ جائے گا۔
سو میں نے ہیل سٹون کی مچان کو درخت پر گارے سے تیس گز دور لٹکایا۔ رستم نے اپنے والے شکار پر مچان باندھنے کے لیے گاؤں والوں کو بلوایا۔ میں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ چاروں بچھڑے باندھنےو قت میں نے خیال رکھا تھا کہ وہ درختوں کے قریب ہوں تاکہ بعد میں مچان باندھنے میں سہولت ہو۔
ہم تینوں بنگلے سے 4 بجے شام کو نکلے۔ رستم کو زیادہ دور جانا تھا، سو وہ اور ورگیز سینڈوچ، پانی کی بوتلوں، مفلر، کمبل اور پتہ نہیں کیا کیا اٹھائے تیز قدموں سے چل پڑے۔ سڈرک اور میں آرام سے ٹہلتے ہوئے روانہ ہوئے اور ہمارے ساتھ خوراک اور پانی کی ایک بوتل تھی۔ موسم گرم ہو رہا تھا، سو ہم نے کمبل لانا مناسب نہیں سمجھا۔
مچان پر بیٹھنا اکتا دینے والا کام ہے۔ مجھ سے ساکت ہو کر نہیں بیٹھا جاتا۔ والد ہمیشہ مجھے کسی مجسمے کی مانند ساکت بیٹھنے کا کہتے ہیں مگر پتہ نہیں کہ وہ خود کیسے ایسا کر لیتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ بہت مرتبہ مچان پر بیٹھا ہوں اور ان کی عادت ہے کہ وہ ٹانگیں نیچے تہہ کر رکھتے ہیں، پائپ اور چائے پینے کے بعد کسی مجسمے کی مانند ساکت ہو کر پوری رات گزار دیتے ہیں۔ مگر مجھے ہر طرح کی پریشانی ہوتی ہے۔ پیروں میں سوئیاں چبھنے لگتی ہیں، کمر تھک کر درد کرنے لگتی ہے، مچھر نہ صرف کاٹتے ہیں بلکہ ناک اور کان میں بھی گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں ہر مچھر کو مارنے کی کوشش کرتا ہوں مگر والد کو یہ بات پسند نہیں اور منع کرتے ہیں۔ شاید وہ بھول جاتے ہوں گے کہ میرا جوان خون شاید مچھروں کو زیادہ پسند آتا ہوگا۔ آپ کو تو علم ہوگا ہی کہ بزرگ کیسے جوانوں کو نصیحت کرتے ہیں۔
خیر، سات بجے تک اندھیرا چھا چکا تھا اور مچھر ہمارا خون چوسنے میں پوری طرح مگن تھے۔ میں سڈرک کو پہلے ہی منع کر چکا تھا کہ مچھروں کو مارنا نہیں۔ اسی لیے جب میں نے مچھروں کو مارا تو اس نے کئی با رمجھےکہنی ماری۔ وقت گزرتا رہا اور پونے آٹھ بجے ہمیں بھورے رنگ کا دھندلا دھبہ دکھائی دیا جو پتہ نہیں کہاں سے آ گیا تھا۔ چونکہ چاند نہیں تھا، اس لیے تاروں کی مدھم روشنی میں کافی حد تک صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس سےاتنی روشنی تھی کہ ہمیں بڑے درخت اور یہ دھبہ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ مردہ بچھڑا ہمیں دکھائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ وہ کالے رنگ کا تھا۔ خیر، یہ دھبہ پھر بیل کی سمت بڑھا اور پھر ہمیں زنجیرکھڑکھڑانے کی آواز آئی۔ پھر تیندوے کےگوشت کھانے اور ہڈیاں چبانے کی آواز آئی۔ آہستہ آہستہ میں نے رائفل شانے تک اٹھائی مگر رائفل پر لگی ہوئی ٹارچ درخت سے ٹکرائی اور ہلکی سی آواز پیدا ہوئی۔ بچھڑے کی سمت سے غراہٹ سنائی دی اور پھر دھبہ میرے بائیں جانب چل پڑا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دس منٹ بعد میرے دائیں جانب عین میرے نیچے نمودار ہوا۔ پھر مجھے چاٹنے کی آواز آئی جیسےتیندوا پچھلی ٹانگوں پر بیٹھا خود کو صاف کر رہا ہو۔ اس بار میں نے رائفل کو محتاط ہو کر اٹھایا اور ٹارچ جلائی۔روشنی سیدھی تیندوے پر پڑے جو کتے کی طرح بیس گز دور بیٹھا تھا۔ اس نے میری جانب دیکھا اور میں نے تیزی سے نشانہ لیتے ہوئے گولی چلائی۔ اعشاریہ 423 کی رائفل سے گولی نکلی اور تیندوا وہیں گر گیا۔ میں سمجھا کہ تیندوا مر گیا ہوگا۔ مگر پھر اچانک وہ اچھلا اور سیدھا ہمارے نیچے سے ہوتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔
سڈرک یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ تیندوے کے غائب ہوتے ہی اس نے نیچے اترنے کا سوچا۔ میں نے اسے روکا تو وہ کہنے لگا کہ چلو چل کر تیندوے کا پیچھا کرتے ہیں۔ میں نے اسے حماقت سے روکا کہ صبح تک یہاں سے ہلنا بھی نہیں۔
ہم ایک گھنٹہ اور بیٹھے رہے۔ مچھر ہمیں اتنا کاٹ رہے تھے کہ ہم نے بنگلے کو جانے کا سوچا۔ میں پہلے اترا اور پھر سڈرک نے مجھے رائفل پکڑائی۔ پھر وہ پانی کی بوتل سمیت اترا۔ آخری چھ فٹ وہ جست لگا کر اترا۔ جونہی وہ زمین پر پہنچا تو ہمیں زور کی غراہٹ قریب سے سنائی دی۔ میں نے ٹارچ اور رائفل کو اس سمت پھیرا مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ کچھ منٹ انتظار کے بعد ہم اس سمت چند قدم بڑھے مگر خاردار جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ ہمیں کچھ دکھائی نہ دیا۔ تاریکی میں مزید پیش قدمی مناسب نہ محسوس ہوئی۔ پھر ہم اس جگہ گئے جہاں تیندوے پر میں نے گولی چلائی تھی اور خون کے نشانات تلاش کرنا شروع کیے۔
ٹارچ کی روشنی میں ہمیں خون کا کوئی نشان نہ ملا اور میں سمجھا کہ نشانہ خطا گیا ہوگا۔ میں نے سرگوشیوں میں سڈرک سے یہ بات کی مگر اسے یقین تھا کہ تیندوے کو گولی لگی ہے۔ تاہم مجھے شک تھا، سو ہم نے فیصلہ کیا کہ واپس مچان پر جاتے ہیں کہ شاید گولی خطا گئی ہو اور تیندوا واپس آئے۔
بقیہ رات انتہائی بے آرامی سے کٹی۔ مچھروں کے علاوہ سردی نے بہت تنگ کیا۔ خیر، پو پھٹتے ہی ہم نیچے اتر کر گھاس پر لیٹ گئے تاکہ تھکے ہوئے جسموں کو آرام ملے اور سورج چڑھ آئے۔ سات بجے ہم نے خون کے نشانات کی تلاش شروع کی۔ جلد ہی خاردار جھاڑیوں کے پاس خون کی چند بوندیں دکھائی دیں اور پھر چالیس گز آگےچل کر ایک جگہ کافی خون دکھائی دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ تیندوے کو کاری زخم لگا ہے، سو وہ یہاں آ کر لیٹا ہوگا۔ شاید پچھلی رات سڈرک کے اترنے پر یہیں سے تیندوے نے غرا کر اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔ اب ہمیں احساس ہوا کہ خوش قسمتی سے تیندوے نے حملہ نہیں کیا ورنہ ہم اسے سوئے ہوئے ملتے۔
سڈرک نے اس مقام کی تصویر کھینچی۔ وہ ہر وقت اور ہر چیز کی تصویر کھینچنے کاشوقین تھا۔
اس مقام سے مزید ایک سو گز تک خون کی لکیر ملتی رہی۔ اس دوران تیندوا ایک بار پھر لیٹا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کو کاری زخم لگا ہے۔ اس کے بعد خون کی لکیر مدھم ہوتی گئی کہ شاید چربی کا ٹکڑا یا کوئی جھلی گولی کے زخم پر آ گئی ہوگی اور بیرونی جریانِ خون رک گیا ہوگا۔
جھاڑ جھنکار بہت گھنا تھا اور ہم نے ہر جگہ دیکھا مگر تیندوا نہ ملا۔ جنگل کی لائن پر چلتے ہوئے ہم تیندوے کی تلاش کی کوشش کرتے رہے۔
میں مزید سو گز گیا ہوں گا اور سڈرک میرے پیچھے بیس قدم دور کیمرہ اٹھائے چل رہا تھا۔ اچانک انہونی ہوئی۔ شاید تیندوا کہیں چھپا ہوا ہوگا اور دکھائی نہ دیا۔ اس نے مجھے گزرنے دیا اور پھر غراتے ہوئے اس نے حملہ کیا۔ سڈرک اس مقام پر تھا جہاں تیندوا چھپا ہوا تھا اور تیندوے نے اس کی بجائے مجھ پر حملہ کیا۔ شاید تیندوا مجھے اتنے غور سے دیکھ رہا ہوگا کہ اس نے سڈرک پر توجہ نہیں دی۔ خیر، تیندوے نے حملہ کیا اور اس کی غراہٹ سنتے ہی میں مڑا اور اسے دیکھ لیا۔ خوش قسمتی سے گزشتہ رات والی گولی اس کی اگلی دائیں ٹانگ کو توڑ چکی تھی، اس لیے وہ لنگڑاتا ہوا آیا۔
میں رائفل بائیں شانے سے چلاتا ہوں، سو رائفل تان کر میں نے گولی چلائی جو تیندوے کے گلے میں پیوست ہوئی۔ وہ آگے جھک گیا اور غراتا رہا۔ اس دوران میں نے دوسری گولی بھی اس میں اتار دی۔
پھر جا کر مجھے احساس ہوا کہ سڈرک اس کے عین پیچھے اور جوش کے مارے ناچ رہا تھا۔ وہ گولی کی عین سیدھ میں تھا اور عین ممکن تھا کہ میری گولی تیندوے کی بجائے ہو سکتا ہے کہ اسے لگتی۔ تاہم اس کی ہمت دیکھیے کہ اس نے تیندوے کے حملے کی تصویریں بھی کھینچی تھیں۔ سڈرک کو یہ کیسے ہمت ہوئی کہ اتنے نازک وقت میں بھی تصویر لینی ہے کہ جس وقت سو میں سے ننانوے لوگ مڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے شوق کی وجہ سے اسے کچھ اور نہ سجھائی دیا تھا۔ اس نے بتایا کہ بغیر سوچے سمجھے کیمرہ آنکھ سے لگاتے ہی اس نے مشینی انداز میں تصاویر اتارنی شروع کر دی تھیں۔
جب ہم خوشخبری لے کر بنگلے پہنچے تو دیکھا کہ رستم اور ورگیز پہلے ہی آ چکے تھے۔ وہ دونوں دو بجے تک بیٹھے اور پھر مچھروں سے تنگ آ کر انہوں نے بنگلے کا رخ کیا کہ شیر نہیں آیا تھا۔ بنگلے کو لوٹ کر وہ سو گئے۔
نو بجے ہم تیندوے کو بنگلے میں لائے اور ایک گھنٹے میں اس کی کھال اتر گئی تھی۔ یہ تیندوا کافی بڑا اور نر تھا۔ اس کی لمبائی ناک سے دم تک 7 فٹ 8 انچ تھی۔
قبل از وقت دوپہر کا کھانا کھا کر میں نے رستم کو کہا کہ چلو چل کر پھر بیل والے گارے پر بیٹھتے ہیں۔ اس دوران ورگیز نے باقی دو گاروں کی دیکھ بھال کو بندے بھیج دیے تھے اور انہوں نے آ کر بتایا کہ وہ دونوں بخیریت ہیں۔
جب ہم رستم کی مچان کو پہنچے تو دیکھا کہ شیر نے صبح کے قریب پہنچ کر اپنا پیٹ بھرا تھا۔ شاید وہ وہیں کہیں چھپا ہوا دیکھ رہا ہوگا۔ بعد میں جب رستم اور ورگیز چلے گئے تو اس نے آ کر کھا لیا ہوگا۔ تین چوتھائی بچھڑا کھایا جا چکا تھا۔
رستم کو بہت مایوسی ہوئی، مگر اس نے پھر بھی بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ اچانک مجھے خیال آیا۔ میں نے ورگیز کو ایک مقامی بندے کے ساتھ بھیج کر مدیانور کے ساتھ بندھا ہوا بچھڑا منگوایا۔ دو گھنٹے بعد بچھڑا آیا تو میں نے اسے بچھڑے کی لاش سے تیس قدم دور بندھوا دیا۔ مجھے توقع تھی کہ شیر اس پر حملہ کرے گا کیونکہ لاش میں زیادہ گوشت نہیں بچا تھا اور سڑاند پیدا ہو گئی تھی۔ رستم کی سوچ مختلف تھی کہ شیر جہاں ایک روز قبل بچھڑے کی لاش چھوڑ گیا تھا، وہاں اب زندہ بچھڑا کھڑا ہوگا۔ تاہم میں نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی۔
ساڑھے پانچ بجے میں، سڈرک اور رستم مچان پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ مچان کے گرد ہم نے تازہ پتے لگا دیے تھے۔ رستم نے پہلے گولی چلانی تھی اور پھر میں گولی چلاتا۔ سڈرک نے کیمرے کے ساتھ فلیش کا نیا بلب بھی لگا لیا تھا کہ شاید کوئی اچھی تصویر بنانے کو مل جائے۔
دھندلکے کی آمد کے ساتھ ہر قسم کے پتنگے اور حشرات پاس والے تالاب سے اڑ کر ہمیں عذاب دینے کو پہنچ گئے۔ مگر ہم جوان اور پرجوش تھے۔ رستم شیر کے شکار کے لیے عرصے سے منتظر تھا۔
آٹھ بجے، پھر نو بجے اور پھر کچھ دیر بعد ہمیں شیر کی دھاڑ سنائی دی جو پہاڑی سے اتر کر تالاب کو آ رہا تھا۔ یہ آواز ایک میل دور رہی ہوگی۔ 45 منٹ بعد ہماری بائیں جانب بانس کے گھنے جھنڈ سے کاکڑ کی آواز آئی۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ شیر پہنچنے والا ہے۔
ہم منتظر رہے۔ اس بار پچھلی رات کی نسبت زیادہ اندھیرا تھا کہ یہاں بانس زیادہ تھے۔ میں نے رستم کو سرگوشی میں بتایا کہ جب تک شیر نئے بچھڑے پر حملہ یا لاش سے پیٹ نہ بھرنا شروع کرے، اور جب تک میں ٹارچ نہ جلاؤں، تب تک گولی نہیں چلانی ۔ خوش قسمتی سے دوسرا بچھڑا سفید رنگ کا تھا اور ہلکا سا دکھائی دے رہا تھا۔ ہمیں صاف سنائی دے رہا تھا کہ بچھڑا رسی سے پیر چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ شاید اسے آنے والے خطرے کا پیشگی اندازہ ہو گیا تھا۔
دس منٹ تک خاموشی رہی۔ پھر گہری دھاڑ کے ساتھ شیر نے نئے بچھڑے پر حملہ کیا۔
رستم بیدِ مجنوں کی طرح کانپ رہا تھا مگر نے اسے کندھے سے پکڑ کر خاموش رکھا۔ پھر بیل کا گلا گھونٹنے کی آواز آئی اور پھر اس کی گردن ٹوٹنے کا کڑاکا سنائی دیا اور بیل کی لاش زمین پر دھم سے گری۔
میں نے رستم کے کندھے کو تھامے رکھا۔ دس منٹ کی خاموشی کے بعد شیر نے بچھڑے کی پچھلی ٹانگوں کا رخ کیا تاکہ پیٹ چیر کر آنتیں وغیرہ نکال سکے۔
ہم پھر بھی منتظر رہے اور شیر نے پیٹ پھاڑ کر بیل کی آنتیں نکالیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اس وقت شیر کی توجہ پوری طرح بچھڑے پر مرکوز ہوگی۔ سو میں نے رستم کا کندھا چھوڑ کر اسے تیار رہنے کے لیے ٹہوکا دیا۔
ہم نے اپنی رائفلیں اٹھائیں۔ دس سیکنڈ بعد میں نے اپنی ٹارچ جلائی۔ روشنی پڑتے ہی شیر نے مڑ کر مچان کی سمت دیکھا۔ عین اسی وقت رستم کی ٹارچ بھی جلی اور دونوں روشنیوں میں شیر حیرانی سے ہماری جانب دیکھ رہا تھا۔ سیکنڈ گزرتے گئے اور میں سوچ رہا تھا کہ رستم کب گولی چلائے گا۔ جونہی میں نے اپنی رائفل کی لبلبی دبائی تو اعشاریہ 400/450 کا دھماکہ سنائی دیا۔
رستم نے بیک وقت دونوں نالیاں چلائی تھیں اور دھکا بہت زوردار رہا ہوگا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ پیچھے جھک گیا تھا۔ تاہم اس کی دونوں گولیاں عین نشانے پر شیر کی گردن پر کندھے کے عین اوپر لگیں۔شیر کو زور کا جھٹکا لگا اور وہ آگے کو جھکا جیسے سونے لگا ہو۔ اس کی دم چند مرتبہ ہلی اور پھر سب کچھ ساکت ہو گیا۔ رستم کا یہ پہلا شیر تھا۔
ہم نے مزید نصف گھنٹہ انتظار کیا مگر شیر میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ سو ہم مچان سے اتر کر شیر پر گئے مگر ہماری ٹارچیں شیر پر مرتکز رہیں۔ شیر نے کوئی حرکت نہ کی۔ معائنے پر رستم کی خوشی دوبالا ہو گئی تھی کہ اس نے شاندار نر شیر مارا تھا۔ شیر کی لمبائی 9 فٹ 4 انچ تھی۔
پھر ہم خوشی خوشی بنگلور لوٹے۔ رستم نے شیر مارا تھا، میں نے ہیل سٹون کے دشمن تیندوے کو مار لیا۔ مگر سڈرک بون سب سے زیادہ خوش تھا کہ اس نے انتہائی خوبصورت تصاویر لیں اور زخمی ہونے سے بھی بچا کہ تیندوے نے اس کی بجائے مجھ پر حملہ کرنے کا سوچا تھا۔
میں نے والد کو پوری کہانی سنائی تو انہوں نے مجھے اور رستم کو مبارکباد دی۔ مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ سڈرک کتنا خوش قسمت تھا۔
اگلی صبح جب انہوں نے تصاویر دیکھیں تو بہت خفا ہوئے۔ اس وقت تو مجھے بہت برا لگا مگر اب ان کی باتیں یاد کرتا ہوں تو ان کی باتیں درست لگتی ہیں۔
میں نے دو بڑی غلطیاں کی تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ میں نے زخمی تیندوے کی تلاش پر پوری توجہ نہیں دی تھی۔ دوسرا جوش کے مارے میں نے گولی چلائی تو سامنے کھڑے سڈرک کو نہیں دیکھا جو محض بیس قدم دور تھا۔ خیر، کہتے ہیں کہ قسمت اناڑیوں کی مدد کرتی ہے، سو میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

کیینتھ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
راج نگرا کا قصاب از کینتھ