اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا

میر تقی میر کی ایک غزل

نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا
شاعری تو شعار ہے اپنا

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا

روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا

دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور
اس میں کیا اختیار ہے اپنا

کچھ نہیں ہم مثال عنقا لیک
شہر شہر اشتہار ہے اپنا

جس کو تم آسمان کہتے ہو
سو دلوں کا غبار ہے اپنا

صرفہ آزار میر میں نہ کرو
خستہ اپنا ہے زار ہے اپنا

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button