- Advertisement -

نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا

میر تقی میر کی ایک غزل

نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا
شاعری تو شعار ہے اپنا

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا

روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا

دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور
اس میں کیا اختیار ہے اپنا

کچھ نہیں ہم مثال عنقا لیک
شہر شہر اشتہار ہے اپنا

جس کو تم آسمان کہتے ہو
سو دلوں کا غبار ہے اپنا

صرفہ آزار میر میں نہ کرو
خستہ اپنا ہے زار ہے اپنا

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل