- Advertisement -

حد کے اس پار

ایک افسانہ از معافیہ شیخ

اندھے لوگوں کی بستی میں یہ میرا پندرھواں اور آخری دن تھا میں گھر خالی کر چکا تھا، اول اول میں روز ایک گھر میں دستک دے کر ان سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔۔ مگر وہ میری بات سمجھ ہی نہیں پاتے تھے، پہلے پہل یہ صرف میرا قیاس تھا کہ میں سماعت سے بےبہرہ لوگوں کی بستی میں آ گیا ہوں، اس بستی کے لوگ میری زبان سے ناواقف تھے۔ لیکن گفتگو کسی بھی زبان میں کی جائے کان اسے سن سکتے ہیں۔ اور ان کی بصیرت کیسے وہ دیکھنے سے محروم تھی جس کی شکل کرہ ارض کے ہر خطے، قبیلے اور ہر زبان میں ایک تھی۔
میں نے روانہ ہونے سے پہلے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا؛ ایک نوجوان لڑکے نے دروازہ کھولا اور مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے انجان بن کر پہچاننے کی کوشش کرنے لگا ۔۔ اس نے دیکھا کہ میرے بائیں ہاتھ سے خون رس رہا ہے مگر شاید وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا اس لیے بہت زور سے دروازہ بند کردیا ، میں چند لمحے سمجھ ہی نہ پایا کہ یہ کیا ہوا۔۔ مجھے پانی کی طلب تھی جو پوری نہ ہوئی۔۔ میں اپنے حواس پر قابو پانے کے لیے گلی کے کونے میں لگے ایک بہت بڑے درخت کے سائے میں بیٹھ گیا۔۔ مجھے جلد ہی یہاں سے نکل جانا تھا، میں سوچنے لگا۔
جب مجھے یہاں آئے تین دن گزرے تھے تو میں نے دیکھا تھا یہ بستی ایک دوسرے کی محبت سے گندھی ہوئی ہے۔۔ اس کے باسی ایک دوسرے کے لیے جان نثار کرنے والوں میں سے ہیں۔
چند دن ہی گزرے تھے کہ بستی میں کسی کے گھر کوئی موت واقع ہو گئی اور ایسے لگ رہا تھا جیسے ساری بستی کے گھر موت واقع ہوگئی ہو۔۔ تمام بستی سوگ میں ڈوب گئی تھی ، ان کے ہاں رواج تھا کہ جب کوئی سانحہ برپا ہو جاتا تو اس روز سے اگلے تین روز تک خاموشی اختیار کر لی جاتی ۔۔ چہرے اداسی اوڑھ لیتے۔۔ اور گم صم ہو جاتے۔ پھر دن گزرتے اور دھیرے دھیرے سب معمول کی طرف لوٹنے لگتے۔۔
میں ان کی زبان کو مکمل طور پر سمجھ تو نہیں سکا تھا مگر مجھے ان کے عمل سے کچھ نہ کچھ بات سمجھ آ جاتی تھی۔ ان کے دکھ درد میں بھی شریک ہوتا تھا کہ دکھوں کی کوئی زبان نہیں ہوتی، دکھ بس سانجھے ہوتے ہیں۔۔ انھیں محسوس کرلیا جاتا ہے۔ اور میری محسوس کرنے کی حس مکمل بیدار تھی۔
میں یہاں سیاحت کی غرض سے آیا تھا، مجھے چند ہی دن میں واپس لوٹ جانا تھا پھر نہ جانے کیوں میں ایک کمرے کے گھر میں رہائش پذیر ہوگیا۔ میرا کمرا اوپری منزل پر تھا اور نچلی منزل پر صاحب مکان رہائش پذیر تھا۔ میرے مکان کے بالکل سامنے ایک منزل پر مشتمل لکڑی کے خوبصورت بڑے دروازے والا ایک گھر تھا جہاں ہمہ وقت لوگ جمع رہتے اور وہاں سے ہنسی قہقہوں کی آوازیں آتی تھیں۔۔ وہ گھر میرے لیے بستی کا سب سے پیارا گھر تھا۔۔ کیونکہ وہاں موجود ایک شخص میری زبان سمجھتا تھا۔۔ یقینا وہ میرے ہی خطے سے تھا مگر یہاں رہ کر ان کی زبان سیکھ چکا تھا اسی کی مدد سے مجھے کمرا کرائے پر لینے میں آسانی ہوئی تھی۔ سوگ کے تین روز میں نے اس گھر میں لوگ ویسے ہی تواتر سے آتے دیکھے تھے مگر وہ بھی اداسی اوڑھ کر بیٹھے رہتے تھے۔۔ اس گھر کا ایک کمرا اس شخص کی رہائش گاہ اور دوسرا حصہ چائے خانہ تھا۔
آٹھویں دن بستی میں اچانک ایک شور سا برپا ہوا۔۔۔تمام لوگ گھروں سے نکل آئے اور ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے کہ یہ کیسا شور ہے۔ پھر ایک شخص کہیں سے دوڑتا ہوا آیا اور اپنی زبان میں انھیں کچھ بتانے لگا۔۔ جس کی مجھے کچھ سمجھ نہ آئی، مگر اس شخص کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا اور سانس پھولی ہوئی تھی۔ تمام لوگ اس کے پیچھے چلنے لگے تھے۔۔۔ میں بھی ان کے ہمراہ چل دیا، وہ شخص نہر کے کنارے پہنچ کر رک گیا جہاں ایک آدمی جو حالت و ہیئت سے کسی بڑے خاندان کا معلوم ہوتا تھا ، ایک غریب آدمی کو پیٹ رہا تھا، ظلم سہنے والا کرلا رہا تھا۔۔ میرے چہرے کے تشویشناک تاثرات سے میرے مالک مکان نے مجھے اشاروں سے یہ بات سمجھائی کہ ایک معمولی سی غلطی پر اسے یہ سزا دی جا رہی ہے ۔۔ آن کی آن میں نے دیکھا کہ تمام لوگوں نے اس آدمی پر دھاوا بول دیا اور مظلوم کو اس کے شکنجے سے آزاد کروا لیا۔ یہ اس بستی کی ایک نمایاں خوبی تھی کہ ظلم کے خلاف تمام لوگ ‘ایک’ ہو کر لڑتے۔ جیسے ابھی سب ایک جسم ایک جان تھے۔ میں ان سے بہت متاثر ہوا۔
میں نے دیکھا کہ اب بستی میں لوگوں کے چہروں نے خوشی اوڑھ لی تھی، میں بھی ان کے ساتھ ساتھ خوشی اوڑھ کر چلنے لگا۔
اس خطے کی ثقافت اور اقدار نے میرے دل میں اپنا ایک الگ تاثر قائم کر لیا تھا۔ لیکن یہ تمام محبت اور روایات و اقدار صرف ایک بستی تک ہی محدود تھیں، اس سے باہر آس پاس کی بستیاں ان کی کسی خوشی، غم و الم یا ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف بغاوت میں شریک نہیں ہوتی تھیں۔ لیکن مجھے تو ان کے درمیان وقت گزارنا بھلا معلوم ہونے لگا تھا۔۔ اور اب میں خود کو اسی بستی کا باسی تصور کرنے لگا تھا۔
گیارہویں دن میں بستی کے تاریخی مقامات کو دیکھنے کی خواہش میں گھر سے نکل پڑا ۔۔ بستی کے حوالے سے معلومات تو پہلے ہی اکھٹی کر رکھی تھیں لیکن یقینا ان کی تاریخ جاننے سے میں اس جگہ کو بہتر جان سکتا تھا۔
میں اپنے کمرے کو تالا لگا کر سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ میں نے دیکھا ، لکڑی کے بڑے دروازے والے گھر سے (جہاں لوگوں کی آمد و رفت ہمیشہ رہتی تھی) ایک شخص کو کندھوں پر اٹھا کر باہر لایا جا رہا ہے۔۔ اور یہ شخص وہی تھا جو میرے خطے سے تعلق رکھتا تھا۔ میرا دل ڈوب گیا! تمام لوگوں کے چہروں نے اداسی اوڑھ رکھی تھی یعنی وہ روح اس جہان سے کوچ کر چکی تھی، میں نے اپنے کمرے کا تالا کھولا اور سفری بیگ واپس کمرے میں رکھ کر ان لوگوں کے ہمراہ چلنے لگا۔ میں جانتا تھا بستی اب تین دن سوگ میں رہے گی۔۔ مجھے اب کوئی خوشی کا کام نہیں کرنا چاہیے تھا سو میں نے اپنے تمام ارادے ترک کردیے۔۔ شام تک لوگوں کے چہرے اداسی اوڑھے رہے مگر رات ہوتے ہی ایک قہقہہ فضا میں گونجا جو غالبا میرے بائیں جانب کسی گھر سے ابھرا تھا یا شاید دائیں جانب سے، میں ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا تھا۔ لیکن یہ بستی کے اصولوں کے خلاف تھا۔۔ میں اب جاننا چاہتا تھا کہ اصولوں کی خلاف ورزی پر یہ لوگ کیا ردعمل دکھائیں گے۔۔ رات خاموشی سے کٹ گئی، صبح ہوتے ہی میں گلی میں نکل آیا یقینا کوئی عدالت سجی ہوگی۔۔ مگر وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا، بلکہ کئی ایسے چہرے دکھے جنھوں نے اداسی کا لبادہ اتار دیا تھا۔۔ کئی لوگ دوسرے ہی دن معمول کی جانب آ گئے تھے۔
میں حیران سا ہو کر اپنے کمرے میں لوٹ آیا یہ تمام لوگ اس شخص کے ساتھ قہقہوں میں شامل ہوتے تھے، پھر اس کے چلے جانے پر اس گھر کی اداسی میں شامل کیوں نہ ہوئے؟ میں اداس تھا۔۔۔ بہت اداس، وہ جو میری بات سمجھ سکتا تھا وہ جا چکا تھا۔۔
تین دن کے سوگ کے بعد میں سفر کے لیے نکل پڑا۔۔ یہ بستی چھوٹی سی تھی لیکن اپنی تعمیر میں ایسی بہترین، کہ اسے ایک چھوٹا شہر کہا جا سکتا تھا۔۔ میں اس کے چند تاریخی مقامات کو دیکھتے دیکھتے ہی شہر کے اختتام تک بھی پہنچ گیا۔ بستی کی سیر کے لیے تو میری سوچ سے بھی کم وقت درکار تھا۔ شہر کے اختتام پر ایک لکیر کھنچی ہوئی تھی جہاں ایک تختی لگی نظر آئی جس پر ایک ایسا نشان بنا تھا جس کا معنی کسی کو “روکنا” مقصود تھا اور اس کے نیچے ایک جملہ تحریر تھا، جس کے معنی میرے مطابق یہی تھے “اس حد میں داخل ہونا منع ہے۔” مجھے خوشی ہوئی کہ دنیا میں جب کوئی زبان بولی نہیں جاتی تھی تو اشارے بات ایک دوسرے تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔۔ اشاروں نے اس بستی میں داخل ہونے سے لے کر آج تک اپنا کردار بخوبی ادا کیا تھا۔۔۔ میرے خیال میں یہ حدود شاید جغرافیائی تھی۔۔ اور مجھے اس کا احترام کرنا چاہیے تھا سو میں واپس جانے لگا کہ اچانک میں نے دیکھا لکیر کے اس پار ایک بچی کو چند لوگ لاتوں اور گھونسوں سے مار رہے ہیں۔۔ یہ منظر میرے لیے دل چیر دینے والا تھا۔۔ میں چلانے لگا، اپنی زبان میں ہی کہنے لگا “مت کرو؛ ایسا مت کرو۔” میں نے انھیں روکا مگر وہ لوگ نہ رکے۔۔۔ وہ مجھے سن کر ان سنا کر چکے تھے، اور نفرت آمیز نظروں سے میری جانب دیکھ رہے تھے جیسے یہ کوئی انہونی ہو، وہ تعداد میں تین تھے اور بچی ایک!
میں ہڑبڑا گیا اور اس سنسان جگہ سے آبادی کی طرف دوڑا جو تھوڑے ہی فاصلے پر تھی۔۔ وہاں پہنچ کر بستی والوں کو اشاروں سے بتایا کہ وہاں شہر کے آخری کونے میں ایک بچی پر ظلم ہو رہا ہے۔۔ کوئی میری بات سمجھ نہیں پا رہا تھا، میں اب تک یہی سمجھ رہا تھا کہ ان کی سماعت صرف میری زبان سمجھنے سے قاصر ہے مگر۔۔۔ بستی کے کسی ایک فرد کی پکار پر تمام لوگ ہمیشہ کی طرح فوری اکٹھے ہو چکے تھے، میں بس ان تمام لوگوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔۔ خوف سے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
بستی کے لوگ میرے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اس مقام تک پہنچ گئے بالکل ویسے جیسے میں ان کے پیچھے چلتا ہوا نہر کنارے تک پہنچ گیا تھا۔ ان درندوں کا ظلم اب بھی جاری تھا۔۔ میں جانتا تھا بستی والوں کے چہرے اب غصے سے لال ہو جائیں گے اور وہ اسے بچا لیں گے۔۔
ان کے چہرے حقیقتا غضب ناک ہوگئے ، لیکن وہ اس غصے میں مجھ پر چلانے لگے۔۔
مجھے لگا وہ لکیر جسے میں نے جغرافیائی حدود سمجھ کر پار نہ کیا شاید وہ میری کم فہمی تھی اور اس نشان کا معنی وہ نہ تھا جو میں سمجھا تھا۔
میرے لیے یہ دوسرا حیران کن واقعہ تھا۔۔ انھوں نے میری التجا نظر انداز کر کے آپس میں باتیں شروع کر دیں، تب مجھے لگا جیسے وہ صرف سماعت نہیں بصیرت سے بھی محروم ہو چکے ہوں ۔۔ اور وہ ظالم اس پر ظلم کرتے رہے، وہ تین لوگ کون تھے اور کس بستی سے تھے، نہ کسی کو معلوم تھا اور نہ ہی کسی کو غرض۔۔
لیکن میرے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا تھا۔ انھوں نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے اچانک اس بچی پر خنجر سے وار کردیا، میں بنا سوچے سمجھے حد کے اس پار بچی کو بچانے بھاگا۔۔ اسے بچاتے ہوئے ایک وار میرے بائیں ہاتھ پر بھی ہوا، میں نے ان سے التجائیں کیں مگر وہ لوگ نہ رکے یہاں تک کے اس بچی کا سانس رک گیا۔ بستی والوں کی محبت صرف ایک ہی خانے میں پڑی دیکھ کر مجھے ان سے کراہت سی محسوس ہوئی۔۔
میں زخمی ہاتھ کے ساتھ مردہ بچی کو اٹھا کر اس حد میں لے آیا میرے چہرے نے اداسی اوڑھ لی تھی مگر بستی کے لوگ اسی وقت معمول کے مطابق چہرے لیے کوئی اداسی کا جامہ پہنے بنا ہی وہاں سے رخصت ہوگئے ، کیوں کہ یہ ظلم تو خطے کے اس پار ہوا تھا

معافیہ شیخ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک غزل از منیر نیازی