اپنی خوشی سے تیری رضا تک ہوں میں ہی میں
یعنی حرم سے کرب و بلا تک ہوں میں ہی میں
عفو و عطا سے عفو و عطا تک ہے تو ہی تو
کارِ خطا سے کارِ خطا تک ہوں میں ہی میں
جیسے کوئی شجر ہو کھنڈر میں اگا ہوا
پرکھوں کے مقبروں سے وفا تک ہوں میں ہی میں
دریا کو ابر کر دیا میری ہی دھوپ نے
صرصر کی سرکشی سے صبا تک ہوں میں ہی میں
میری ہی خاک اڑتی ہے دونوں جہاں کے بیچ
ارض و سما سے عرشِ علیٰ تک ہوں میں ہی میں
یہ اشرفی ہے مہر شدہ دونوں سمت سے
جود و سخا سے کذب و ریا تک ہوں میں ہی میں
کل رات آئینے نے بھی اعلان کر دیا
خلقِ خدا سے نورِ خدا تک ہوں میں ہی میں
علی صابر رضوی