- Advertisement -

باندھ لی جاتی کمر کاٹ دیے جاتے تھے

دانش نقوی کی ایک اردو غزل

باندھ لی جاتی کمر کاٹ دیے جاتے تھے
سبز ہوتے ہی شجر کاٹ دیے جاتے تھے

اب کہیں جا کے نظر آیا ہے گاوں میرا
پہلے نقشے سے یہ گھر کاٹ دیے جاتے تھے

عمر ہی کاٹی ہے تم نے یہ بڑا کام نہیں
اسکے کہنے پہ تو سر کاٹ دیے جاتے تھے

دستکیں دیتے ہوئے لوگوں کو معلوم کہاں
پہلی دستک پہ ہی در کاٹ دیے جاتے تھے

موسموں سوچتے رہتے تھے فضا کے بارے
اڑنا آتا تھا تو پر کاٹ دیے جاتے تھے

دانش نقوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شہزاد نیّرؔ کی ایک خوبصورت غزل