سوچ میں پختگی نہیں ہوتی
یوں بسر زندگی نہیں ہوتی
اِک سراپا اُجال رکھنے سے
چارسُو تیرگی نہیں ہوتی
برہمی حسن کا تقاضا ہے
ہاں مگر بے رُخی نہیں ہوتی
ہم سفر رُوٹھ کر بچھڑ جائے
زندگی زندگی نہیں ہوتی
بے بسی اضطراب دیتی ہے
جب کبھی شاعری نہیں ہوتی
وہ بھلے جاگتا رہے برسوں
شب سے وابستگی نہیں ہوتی
فاصلوں کا مزاج کہتا ہے
اِس طرح عاشقی نہیں ہوتی
وہ مرا امتحان لیتا ہے
کم مگر دوستی نہیں ہوتی
جس قدر بھی ہو خوشنما ناصر
پھول میں روشنی نہیں ہوتی
ناصر ملک