تو میرے سر پہ گناہوں کی ایک لادی ہو
جو فکر میرے سخن میں نہ اجتہادی ہو
خدا نہ کردہ وہ سسرال میں بنے نوکر
کہ والدین کے گھر میں جو شاہزادی ہو
ابھی غرور نہ کیجئے کہ عین ممکن ہے
زمینِ بغض پہ مشکل میں پھر منادی ہو
جسے سمجھتے رہے آشتی کا مظہر تم
کسے خبر وہی پوشیدہ اک فسادی ہو
پھر اُس چمن میں تو خوشبو پنپ نہیں سکتی
کہ جس میں مالی کی کوشش ہی بےارادی ہو
یہ ہجر بھی تو انہیں مستند بناتا ہے
محبتوں میں ضروری نہیں کہ شادی ہو
ابھی وہ شعر نہیں کہہ سکی ہوں میں جس میں
نگارِ اوجِ تخیل ہو ؛ بات سادی ہو
شہزین فراز