تم جانتے ہو میں نے کبھی جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل نہیں کی. اور میں کبھی دوسری پوزیشن حاصل کر بھی نہیں سکتا. کیونکہ میں ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کرتا ہوں. میری جماعت میں میرے علاوہ کوئی اول پوزیشن حاصل کر بھی نہیں سکتا….. احمد اور ابراہیم اونچی آواز میں محو گفتگو تھے.
احمد کے نزدیک ذہانت کا مرکز اول پوزیشن ہے. ذہین ہونے کی واحد نشانی یہی ہے. احمد کے والدین ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پرامید تھے. ہمارا بچہ کلاس میں اول آئے تاکہ برادری میں ہماری ناک اونچی رہے. ناک اونچی کرنے کے چکر میں احمد سے توقعات کا انبار لگائے…… احمد گلی محلے میں ہر جگہ یہ اعلان کرچکا تھا. میری طرف سے سب دعوت پکی سمجھو اس لیے کہ کلاس میں اول پوزیشن پھر میری ہوگئی. وقت سے پہلے خوابوں کا محل سجائے ایک دس سال کا بچہ، جس کو ذہنی بیمار کرنے میں والدین کا کردار کلیدی تھا. روز صبح اٹھ کر یہ پوچھتا کیا میں کل اول آؤں گا….؟ آخر وہ دن کب آئے گا؟ مزید کتنے دن رہ گئے ہیں؟احمد کے ذہن میں یہی سوچ گردش کرتی رہتی…… آخر کار وہ دن آگیا جس کا احمد کو بے صبری سے انتظار تھا.
جلدی جلدی بستر سے اٹھا. ناشتہ بھی آدھا ادھورہ کیا اور اسکول کا یونیفارم پہن کر گاڑی کی طرف بڑھا. احمد کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی. احمد گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر براجمان تھا. احمد کے امی ابو نہایت خوشگوار مزاج میں تھے.گاڑی آہستہ آہستہ جانب منزل تھی. اسکول چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا تھا. احمد نے ابراہیم کو دیکھ کر کہا، بابا گاڑی روکے…… گاڑی رکنے پر احمد چھلانگ لگا کر ابراہیم کے پاس گیا اور زورسے گلے لگا کر بولا…….تمہاری پوزیشن دوم اور میری اول ہوگئی دیکھ لینا. ابراہیم مسکرا کر بولا ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں.
ایک بڑے سے ہال میں نجی اسکول کے سالانہ نتائج کا اعلان شروع ہوچکا تھا. احمد کا سانس کبھی آرہا تھا کبھی جارہا تھا. زور زور سے سانس لیتا. اپنے امی ابو کو دیکھتا….. اب کیا ہوگا؟ میری جماعت کا نتیجہ،اول پوزیشن……؟ احمد نے جو سوچ رکھا تھا. ویسا بالکل بھی نہیں ہوا.صورت حال سوچ کے برعکس تھی. احمد اول پوزیشن کے بجائے تیسری پوزیشن حاصل کرسکا.تیسری پوزیشن کا نام سن کر احمد کی حالت غیر ہورہی تھی. احمد کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے. لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ احمد اسٹیج پر میڈل وصول کرنے کے لیے پہنچا مگر نیم بے ہوشی کی حالت میں، حد سے زیادہ یقین احمد کو ذہنی طور پر مفلوج کر چکا تھا.
والدین کا اکلوتا چشم وچراغ اسپتال کے کمرے میں پڑا تھا….. اول پوزیشن کی ضد موت کے قریب لے آئی تھی. جس کیفیت سے احمد گزر رہا تھا. اس کے ذمہ دار صرف احمد کے گھر کے افراد تھے. جنہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ احمد کی ذہنی تربیت بہت ضروری ہے. احمد کو یہ بتانا بے حد ضروری ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف اول پوزیشن نہیں ہے. اول پوزیشن صرف حوصلہ افزائی کا معمولی ذریعہ ہے بنیادی جزو نہیں.
حمیرا جمیل، سیالکوٹ
رُکن اقبال ریسرچ انسٹیٹیوٹ ،لاہور