تجھ سے مَیں ہونے والی محبّت کا کیا کروں
تو تو چلا گیا، تری حسرت کا کیا کروں
سامع کا شعریت سے علاقہ نہیں رہا
تشبیہ و استعارہ و صنعت کا کیا کروں
اِک پھول دے رہا ہے سرِ عام دعوتیں
یارو! بتاؤ حسن کی رشوت کا کیا کروں
شدّت ہے شوق میں نہ وہ جدّت ہے ذوق میں
اب جا کے مِلنے والی فراغت کا کیا کروں
جب دسترس میں ہی نہیں نَکہت، صبا، حنا
گل پوش رنگ و بو! تری جلوت کا کیا کروں
مجھ پر تو میں ہی کھل نہیں پایا تمام ابھی
وحدت کا کیا کروں تری کثرت کا کیا کروں
شبیر نازش