اسلامی گوشہسلام اہل بیت

مرثیۂ نو تصنیف

از سید انور جاوید ہاشمی

نوحہ و گِریہ و عزاداری
خیمہ و پیاس یاد آنے پر
مُستحِق تھا سلام بھیجا ہے
اِس زمانے نے اُس زمانے پر
٭٭

دربارِ نجف سے جو رہے ہاشمیؔ نسبت
غم سبطِ پیمبر کا بڑھا دے مری ہمت
جس وقت پڑھوں مرثیۂ نو اُسی ساعت
بڑھ جائے سرِ مجلس و منبر مری قسمت
شجرے کی ضرورت نہ مرا نام ٹٹولے
اُلفت پسرِ فاطمہ ؒ کی آپ ہی بولے
٭٭

کیا شرط، جہاں پوچھے جو قُرآن کا رُتبہ
دریافت کیا جائے گا انسان کا رُتبہ
ہُدہد سے سنا جائے سُلیمانؑ کا رُتبہ
فی الارض خلیفہ ہے عجب شان کا رُتبہ
اللہ رے کس شان کی ہوتی ہے ولایت
معراج ہے اے مؤمنو ’ مَن کُنٗتَ‘ کی آیت ؎
٭٭

تسبیح کے دانوں میں اگر ذکرِ علیؓ جائے
ہرگز نہ کسی قلب سے پھر حُبِّ نبیؐ جائے
تفریق ازل اور ابد کی نہ رکھی جائے
اُمی لقبی کہہ کے سُوئے ہاشمیؔ جائے
یوں احمدِ مختارؐ کی بیعت میں رہے دل
ہم فرش پہ موجود ہوں جنت میں رہے دل
٭٭

جنت کہ رہا آدمِ اوّل کا جو مسکن
آباد مقامات میں وہ پہلا نشیمن
وہ سجدہ گہہِ جن و ملَک رب کا وہ آنگن
پیدا جہاں شیطان کے دل میں ہوئی الجھن
یہ آدمِ خاکی ہے اسے سجدہ کروں کیا!
سردارِ ملئٰک ہوں، بھلا ایسا کروں کیا؟
٭٭

یہ سجدۂ تعظیم تھا، فطرت کا تقاضا
کیا عرض کیا جائے گا انسانو! وہ رُتبہ
اُس پیکرِ خاکی کا پڑھا پیڑوں نے کلِمہ
دو ٹکڑے جہاں چاند تھا خورشید بھی ابھرا
مسجودِ ملائک تھے وہ کل، جو رہیں کل
وہ نُورِ ازل، شمعِ یقیں، ہادی و افضلؐ
٭٭

انجیل میں موجود سرِ آیتِ قرآن
موسیٰؑ کی بشارت تو کبھی سورۂ رحمن
سب جن و ملک، ارض و فلک جن کے ثناء خوان
کیوں کر بھلا مُنکَر کوئی ہوسکتا ہے انسان
تقدیر ہے جو کچھ کہ صحیفوں میں لکھا ہے
کب مؤمنو باطل کے مٹانے سے مٹا ہے
٭٭

قُرآن ہے آئینۂ اعمالِ محمدؐ
اللہ نے بتلائے ہیں افعالِ محمدؐ
اقوالِ الہٰی ہوئے اقوالِ محمدؐ
اللہ ُ غنی مرتبۂ آلِ محمدؐ
تقدیر نے کی جن کو عطا فخر کی مسنَد
جبریل نے دیکھا وہ درِ آلِ محمد
٭٭

حیدرؓ کا گھرانہ ہوا اولادِ نبیؐ کا
اِک منبع صداقت کا رُخِ مصطفویؐ کا
کیا کہنا علیؑ رُتبہ و خوش پیرَہنی کا
مولاؑ کی ولایت کا اُس آزر شکنی کا
اللہ کی مرضی میں رضا جن کی علیؑ وہ
ہاں بعدِ نبیؐ، حقِّ ولا جن کی علیؑ وہ
٭٭

آغاز میں جو ہاشمیؔ تحریر کیا ہے
عُجلت سے نہیں، صورتِ تاخیر کیا ہے
جب ذکرِ عَلم، نیزہ و شمشیر کیا ہے
ہر سامع کو تاریخ نے دل گیر کیا ہے
لازم ہوا گریہ جو کریں۔ سانس نہ ٹوٹے
کیوں کر غّمِ شبیرؓ کا یہ سلسلہ ٹوٹے
٭٭

روشن رہے یہ شمعِ رثا یوں بھی کروں میں
اسلام کی غم خواری کو مضموں بھی کروں میں
موزونیِ طبع ہو تو موزوں بھی کروں میں
دل روئے مرا اور جگر خوں بھی کروں میں
ہجرت ہو مدینے سے کہاں قافلہ جائے
تقدیر میں لکھا ہے تو پھر کربلا جائے
٭٭

ہاں آلِ محمدؐ میں ابھی نظم ہے باقی
تنظیمِ عزا داراں سرِ بزم ہے باقی
یاں کُفر کی یلغار، وہاں رزم ہے باقی
اے مؤمنو! خُوں دینے کا، گر عزم ہے باقی
دینِ شہہ والاؐ کہے گردن بھی کٹا دو
ہیں جتنے یزیدی اُنھیں دنیا سے مٹا دو
٭٭

دی کس نے سرِ دار نبّوت کی گواہی
تھے عون و محمد سے جری کس کے سپاہی
تعلیم جنہیں رب نے کیے امر و نواہی
تا حشر کریں ارض و فلک مل کے ثنا ہی
سر کٹ گیا توقیر سلامت رہی اُنؑ کی
واللہ عجب شانِ امامتؑ رہی اُنؑ کی
٭٭

نام اُن کا حُسین ابنِ علیؑ لیتے تھے سرکار
کہتے تھے جوانانِ جناں کا اُنھیں سردار
ہاں پیچھے پلٹ آج ذرا وقت کی رفتار
اک پل کے لیے ہم کو نظر آئے وہ پیکار
ہیں پیشِ نظر کس کے حکومت کے مسائل
معلوم تو ہو کون شہادت پہ ہے مائل
٭٭

وہ ناؤ بھنور سے سرِ ساحل نہیں آئی
تصویر نگاہوں میں بھی کامل نہیں آئی
رِقّت کی وہ ساعت جو سرِ دل نہیں آئی
ہاں سچ ہے ابھی بَین کی منزل نہیں آئی
مولیٰ کو اگر ہو گیا منظور چلیں گے
ہم لے کے شہادت کا یہ منشور چلیں گے
٭٭

قُرآن بیاں کرتا رہا جن کی بڑائی
حاصل جنہیں ہر حال میں توثیقِ خدائی
حق چاہتا ہو، حق کی رہے جلوہ نمائی
ہاں مؤمنو، ہو عرش تلک جن کی رسائی
وہ جُزو کی صورت تو کبھی کُل میں نمایاں
آثارِ نجف، مشہد و بابُل میں نمایاں
٭٭

لب جن کے فضائل کو بیاں کرنے سے قاصر
وہ رمزِ خفی آج عیاں کرنے سے قاصر
انساں سبھی جاں کا زیاں کرنے سے قاصر
عباسؓ کو اپنا نِگَراں کرنے سے قاصر
وہ قافلہ سالاروں کا حسنینؑ کا یاور
تاریخ کہاں لا سکی پھر ایسا دلاور
٭٭

یہ منظرِ خونیں ہے نظر رکھو جما کر
میدانِ شہادت ہے صف آراء ہیں عسا کر
عباسؓ علَم ہاتھ میں آتے ہیں اُٹھا کر
قاتل یہ سمجھتا رہا تلوار چلا کر
پھر کوئی علَم تھامنے والا نہ رہے گا
زندہ کبھی یہ مقصدِ اعلیٰ نہ رہے گا
٭٭

لاریب شہِ دیں ؑ کے مددگار تھے عباسؓ
اک صاحبِ ایقان علمدار تھے عباسؓ
جرار بھی تھے صورتِ کرار تھے عباسؓ
یا کہئیے غلامِ شہہ ابرار تھے عباسؓ
ہیں آج تلک مَشک و عَلم اُن کی نشانی
کب تاب قلم کو کہ لکھے اُن کی کہانی
٭٭

جو بنتِ شہہ دیں سے خواہر نے لی رخصت
خیمے سے نکل آئے ملی جب کہ اجازت
اللہ غنی مرتبۂ شوقِ شہادت
ہے دوش پہ مشکیزہ تو اک ہاتھ میں رایت
ہاں جانبِ اعداء چلے پہنچے سرِ دریا
مشکیزہ بھرا، پلٹے کہ پہنچیں سرِ خیمہ
٭٭

اغیار کے لشکر نے انہیں راہ میں گھیرا
پھر بازوئے عباسؓ پر اک زخم لگایا
گو بازو گیا پر نہ عَلم شہہ کا گرایا
سینے سے لگایا ہوا مشکیزہ بچایا
تھی فکر یہ، بیٹھی ہے سکینہؓ سرِ خیمہ
پہنچوں کسی صورت سے، رہے کوئی نہ تشنہ
٭٭

کیا آدمی کرسکتا ہے جُز مرضیِ مولیٰ
معبود کی مرضی کہ رہے قافلہ پیاسا
جب نہر پہ وہ مَشک و عَلم اور انھیں دیکھا
غلطیدۂ خوں پائے گئے ابنِ یدُ اللہ
شبیرؑ سے بولے مجھے چہرہ تو دکھا دو
آنکھوں سے مرے آقاؑ ذرا خون ہٹا دو
٭٭

کس طرح کہے شام کا ڈھلتا ہوا سایہ
مقتل سے پرے خیموں کا جلتا ہوا سایہ
بے پردہ وہ زینبؓ کا نکلتا ہوا سایہ
بیمارؓ کا گِر گِر کے سنبھلتا ہوا سایہ
عباسؓ اِدھر دیکھو، ذرا آنکھ تو کھولو
کیا ہو گیا اے قافلے والو ذرا بولو
٭٭

یہ وقت عجب شامِ غریباں کا ہوا ہے
کیا حال کہیں جسم سے جو ہاتھ جُدا ہے
اِن ہاتھوں میں موجود وہی بُوئے وفا ہے
کب حال کسی کا بھی سکینہؓ سے سِوا ہے
کیا زخم گنائے کوئی عباس کے تن پر
روئیں گی ابھی آنکھیں لہو، قیدِ رسن پر
٭٭

کیا شوقِ شہادت تھا برادر نہیں باقی
عباسؑ سے وہ ناصر و یاور نہیں باقی
قاسمؑ بھی گئے اور علی اکبر نہیں باقی
جھولا ہوا خالی علی اصغر نہیں باقی
’’ ہو نذرِ خدا لعل و گہر، جب یہ اثاثہ
پھر کس کے لیے جاں بھلا شبیرؓ بچاتا
٭٭

حُجت یہ ہو پوری مرے مولیٰ میں مروں گا
اے بیبیو تا حشر یونہی زندہ رہوں گا
کیوں راہِ طلب! خود کو بھلا پیچھے رکھوں گا
میں ایک لعینی کی تو بیعت نہ کروں گا’‘
یہ شہؓ نے کہا سرپئے سجدہ یوں جھکایا
تا حشر رہے عرش کا اُس خاک پہ سایا
٭٭

زینبؓ نے سرِ شام سنایا یہی نوحہ
کیا وقت پڑا ہم پہ کہاں آ گئے بابا
عباسؐ ہی باقی ہیں نہ اکبرؑ کو بچایا
کیوں موت نے آخر علی اصغرؑ کو گنٗوایا
بیمار کا بستر بھی تو خالی ہوا بابا
یہ سر مرا چادر کا سوالی ہوا بابا
٭٭

فریاد تھی تقدیر سے یہ شکوا نہیں تھا
ہاں ثانیِ زہراؓ کا یونہی رونا نہیں تھا
کس کام کی تھی جان اگر سجدہ نہیں تھا
بہنا سے مگر بِچھڑا تُو اے بھّیا نہیں تھا
تھی منزلِ اوّل ابھی یہ پہلی رضا کی
تاریخ مکمل نہ ہوئی کرب و بلا کی
٭٭

کوفے کو رواں قافلہ سالار تھیں زینب ؑ
ہمراہ لیے عابدِ بیمارؓ تھیں زینب ؑ
افواج کے نرغے میں گرفتار تھیں زینب ؑ
دل گیر تھیں، غم خوار و عزا دار تھیں زینب ؑ
یوں خاک بسر، بے کس و دل گیر چلے سب
ہونٹوں پہ لئے نعرۂ تکبیر چلے سب
٭٭

عمّو کے تصور میں رہی کھوئی سکینہؑ
بابا کا خیال آیا کہاں روئی سکینہؑ
سجادؓ سے کیا پوچھے بھلا کوئی سکینہؑ
پھوپھی سے بھی کیا ہوسکے دل جوئی سکینہؑ
ہاں کوئی تو بتلاؤ چچا آئیں گے کب تک
کیوں لینے گئے پانی کہ لوٹے نہیں اب تک
٭٭

کی عابدِ مضطرؑ نے بہرحال تسلی
عمو کے بنا بی بی سکینہ نہیں بہلی
روتی تھی رباب اور اسے دیکھ کے کڑھتی
صدقے ہوئی اے بیٹی سکینہؑ تری پھوپھی
دل فرطِ الم سے ہوا بے قابو گئی وہ
بابا نہ ملے، پیاسی ہی کوثر کو چلی وہ
٭٭

تقدیر نے لکھا کہیں یہ غم تو نہیں تھا
زینب کے لیے زخمِ جگر کم تو نہیں تھا
جب نکلے تھے خیموں سے یہ عالم تو نہیں تھا
کم لٹتے ہوؤں کا ابھی ماتم تو نہیں تھا
چادر بھی برائے کفن لا پائی نہ زینب
بھائی کی امانت بھی بچا پائی نہ زینب
٭٭٭

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button