ٹک لطف سے ملاکر گو پھر کبھو کبھو ہو
سو تب تلک کہ مجھ کو ہجراں سے تیرے خو ہو
کیا کیا جوان ہم نے دنیا سے جاتے دیکھے
اے عشق بے محابا دنیا ہو اور تو ہو
ایسے کہو گے کچھ تو ہم چپکے ہو رہیں گے
ہر بات پر کہاں تک آپس میں گفتگو ہو
کیا ہے جواب ظالم پرسش کے روز کہیو
جو روسیاہ یہ بھی واں آ کے روبرو ہو
پرخوں ہمارے دل سے کتنی ہے تو مشابہ
شاید کلی تجھے بھی اس گل کی آرزو ہو
خط اس کے پشت لب کا ساکت کرے گا تجھ کو
کہیو اگر تفاوت اس میں بقدرمو ہو
کھولے تھے بال کن نے ہنگام صبح اپنے
آئی ہے اے صبا تو ایسی جو مشک بو ہو
درویشی سے بھی اپنی نکلے ہے میرزائی
نقش حصیر تن پر ایسے ہیں جوں اتو ہو
مت التیام چاہے پھر دل شکستگاں سے
ممکن نہیں کہ شیشہ ٹوٹا ہوا رفو ہو
کہتے ہو کانپتا ہوں جوں بید عاشقی سے
تم بھی تو میر صاحب کتنے خلاف گو ہو
میر تقی میر