وہ جسے خام خیالی کا ہنر جچتا ہے
اپنی آنکھوں کو وہی تنگ نظر جچتا ہے
اتنا مشکل ہے تعلق کو نبھانا اس سے
ساتھ اپنے تو وہی شخص مگر جچتا ہے
ریشمی لمس دے، سایہ دے، سُکوں دے مجھ کو
سچ کہوں، تجھ پہ یہی کارِ شجر جچتا ہے
میں وہ تتلی ہوں کہ جو رقص کناں ہے تجھ پر
تُو وہی پھول کہ جس سے یہ نگر جچتا ہے
ورنہ لگتا ہے کہ مدفن ہے کئ زندوں کا
ماں نظر آتی ہے جس گھر میں، وہ گھر جچتا ہے
ساتھ محبوب ہو، ٹیڑھے ہوں پہاڑی رستے
تو بھی کچھ غم ہی نہیں، سارا سفر جچتا ہے
مجھ پہ نتھلی کو بہت خوب بتانے والے
سولہ سنگھار کروں تجھ کو اگر جچتا ہے
گھر کے کاموں میں وہ جو خود کو بھلا بیٹھی ہے
وہ سنور جاۓ گی، تم کہہ دو، سنور، جچتا ہے
شہزین فراز