آپ کا سلامابو فہداردو تحاریراردو کالمز

بھارت میں مدارس اسلامیہ کا مستقبل

ایک اردو کالم از ابو فہد

عصری تعلیم سے ہم آہنگی پربحث کوسمیٹ کر قدم بڑھانے کی ضرورت

بحیثیت مسلمان اگر ہم یہ ماننے اورکہنے کی پوزیشن میں ہیں اور یقیناً ہیں کہ اسلام کا مستقبل روشن اور تابناک ہے تو ہم بجا طور پر یہ کہنے کی پوزیشن میں بھی ہیں کہ مدارس اسلامیہ کا مستقبل بھی تابناک اور روشن ہے کیونکہ جس طرح اسلام اور مسلمان لازم وملزوم ہیں ٹھیک اسی طرح مدارس اور مسلمان بھی لازم وملزوم ہیں۔
جس طرح ایک مسلمان کو اللہ کی کتاب سے فراغ ممکن نہیں ہے اسی طرح مسلمانوں کے لیے مدارس سے بھی فرار ممکن نہیں ہے۔اگر مدارس نہیں ہوں گے تواسکول اور کالج ہوں گے جہاں قرآن وحدیث کی تعلیم اور تربیت کے لیے گنجائشیں نکالنی پڑیں گی۔بلکہ عصری اداروں اورجامعات میں دینی علوم کے لیے جتنی گنجائشیں اور سہولتیں آج موجود ہیں، مدارس کی عدم موجودگی میں ان سے کہیں زیادہ سہولتیں اور گنجائشیں درکار ہوں گی۔
مدارس کے نصاب اور نظام میں تبدیلی اور اصلاح کی کوشش بلاشبہ مبارک کوشش ہوسکتی ہے مگر فرار کی کوشش خود اپنی ذات اور تشخص سے فرار کی کوشش بن کر رہ جائے گی۔کیونکہ دینی مدارس سے فرار کا مطلب واضح طورپر علم دین سے فرار کے ہم معنیٰ ہے اور علوم دینیہ سے فرارایمان وعقیدے سے فرار ہے۔اگرخدا نخواستہ ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ مدارس دینیہ اپنا اعتبار اور وقار کھودیں اور عصری دانش گاہیں دینی علوم کے لیے گنجائشیں پیدا نہ کریں تو مسلمان بس نام کے مسلمان بن کر رہ جائیں گے۔مسلمانوں کو کام کا مسلمان بنائے رکھنے کی ذمہ داری کل بھی علمائے اسلام کی تھی اور آج بھی انہی کی ہے۔
میرا خیال ہے بلکہ خیال سے آگے بڑھ کر یقین ہے کہ اکیسوی صدی کے اختتام تک آتے آتے اب ایسے استدلال قائم کرنےکے لیے بہت وقت گزر چکا ہے کہ ہم آج بھی یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دین میں عصری تعلیم کے لیے کیا گنجائشیں ہیں اور کیا کیا راہیں نکلتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اب اقدام کا وقت ہے ۔
کم وبیش گزشتہ تین صدیوں پر محیط محکومانہ زندگی گزارنے کے بعد مسلمانوں پر اب یہ بات تقریباً پوری طرح ثابت ہوچکی ہے کہ علم کی دوئی اور ثنویت سے امت کو، علماء کو اور خود تعلیم و دعوت کے کاز کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس لیے موجودہ دور میں علم کی ثنویت سے پیچھا چھڑا کر یہ جاننے اور کرنے کی کوشش ہونی چاہیے کہ فارغین مدارس دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ اور کیا کچھ کرسکتے ہیں۔
آج کے زمانے میں ایک ڈاکٹر کے لیےمحض ڈاکٹر اور ایک انجینئر کے لیے محض انجینئر بننااور ہونا کافی ہوسکتا ہے، مگر ایک عالم دین کے لیے صرف عالم دین ہونا کفایت نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کے ذمہ دعوت وتبلیغ کا جو بڑا کام ہے اس کی ضروریات اور تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مخاطب کی زبان، مزاج اورقابلیت کو جانتا ہو اور اُس سے اُسی کے علوم کے حوالوں سے بات کرسکتا ہو۔
بے شک یہ ایک مشکل ہدف ہے اور اسے حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اہل مدارس اور علمائے دین اپنے درمیان عصری علوم کو تقسیم کرلیں۔ اس کی ترتیب کچھ یوں ہو گی: عالِم دین پلس ڈاکٹر، عالِم دین پلس انجینئر، عالم دین پلس وکیل، عالِم دین پلس سیاست داں، عالِم دین پلس سائنسداں اور عالِم دین پلس صحافی ومحقق، مؤرخ اور ماہرمعاشیات واقتصاد وغیرہ وغیرہ۔
اگر اس ترتیب کو صحیح طرح سے اپنالیا گیا تو ہم دیکھیں گے کہ ہمارے پاس جلد ہی ہر میدان میں کام کرنے والے اور ہر علم وفن کے حوالے سے بات کرنے والے اور جواب دینے والے اور قرآن وحدیث کے استدلال کو جدید عصری علوم وفنون کے استدلال سے ہم آہنگ کرکے پیش کرنے والے علماء وفضلاء موجود ہوں گے، اور پھر معاشرے پر ان کا اثر ورسوخ بڑھ جائے گا۔علمائے دین کی قدر ومنزلت تو بڑھے گی ہی دعوت دین بھی خوب پھلے پھولے گی۔ساتھ ہی علمائے دین اور مدارس کی معاشی واقتصاد ی حیثیت کے مستحکم ہونے کے امکانات بھی بہت بڑھ جائیں گے۔
اس لیے ہماری ساری محنت اور پورا زور تعلیم کی ترتیب اور نظم پر ہونا چاہیے اور طریقہ تدریس پر ہونا چاہیے اور اس پر ہونا چاہیے کہ علم کے حصول کو زیادہ آسان اور دلچسپ بنانے کے طریقے کیا ہیں اور پھر انہیں موثراور کارگر بنانے کے کیا گُر ہوسکتے ہیں۔
حضور ﷺ نے نافع اور ضار کی نسبت کے ساتھ علم کی جو تقسیم فرمائی ہے اس کا تعلق دنیا وآخرت دونوں کی مضرتوں اور نافعیتوں سے ہے جو انسان کو کسی بھی طرح حاصل یا لاحق ہوسکتی ہیں۔ البتہ اس تقسیم کا براہ راست تعلق علوم وفنون سے کم ہے اور علم حاصل کرنے والوں کی اپنی فکر اور انتظامات سے زیادہ ہے۔ اور اس پہلو سے زیادہ ہے کہ کس علم سے کیا کام لیا جارہا ہے۔
موجودہ دور میں جتنے بھی جدید علوم ہیں ان میں سے بیشتر علوم مفید ہی ہیں، اگرمضرتوں سے ان کی کوئی نسبت بنتی ہے تو وہ زیادہ ترعلم حاصل کرنے والوں کی اپنی ذہنیت، اخلاق، کردار اور عمل سے بنتی ہے اور اس بات سے بنتی ہے کہ اس علم کو کس طرح برتا جارہا ہے۔بے شک چند علوم وفنون ایسے ضرور ہیں جن کی مضرتیں واضح ہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
علم نافع ہر وہ علم ہے جس سے خود علم حاصل کرنے والے کو، سماج کو اور ساری انسانیت کو فائدہ پہنچے۔ اب یہ فائدہ خواہ دنیوی زندگی کو آسان اور خوبصورت بنانے کےزمرے میں ہی کیوں نہ آتا ہو، ہوگا بہر حال وہ فائدہ ہی۔اگر کسی علم سے اناج ونباتات کی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے،لوگوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں، قوم وملک کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے اور انسانوں کی زندگیوں میں سہولتیں پیدا کی جاسکتی ہے تو وہ ہرطرح سے علم نافع ہی ہے بشرطیکہ اس میں مضرت رساں عناصرشامل نہ کیے گیے ہوں۔ علم نافع اور علم ضار کے حوالے سے مولانا عمار زاہد الرشادی نے درست لکھا ہے:
’’ میری طالب علمانہ رائے میں اسلام نے علوم کو دنیوی اور دینی حوالے سے تقسیم نہیں کیا بلکہ نفع و ضرر کو علوم کی تقسیم کا باعث سمجھا ہے اور یہ نفع و ضرر دنیا اور آخرت دونوں حوالوں سے ہے۔ اس لیے جو علم انسان کے لیے فرد اور معاشرہ کے دونوں دائروں میں اس کی آخرت کی نجات اور فوز و فلاح اور دنیا کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بہتر، پراَمن اور باسہولت بنانے کے لیے مفید ہے وہ اسلام کی نظر میں مطلوب علم ہے، اور جو علم ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے وہ علوم ضارہ میں شمار ہوتا ہے۔‘‘ [مضمون: اسلام کا تصورِعلم اوردینی مدارس کا کردار] مضمون کے اختتام پر لکھتے ہیں:
’’ آج کی گلوبل دنیا اور مستقبل کا بین الاقوامی ماحول ہمیں اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ ہم اپنے محدود اور مقامی و علاقائی ماحول کا اسیر رہنے کے بجائے عالمیت، گلوبلائزیشن اور بین الاقوامیت کے تقاضوں اور ضروریات کو بھی سمجھیں اور اس کے لیے اپنے تعلیمی نصاب اور تربیتی نظام میں جس ردوبدل اور تنوع کی ضرورت ہو، اس سے گریز نہ کریں تاکہ دینی مدارس اپنے مستقبل کے کردار کو امت مسلمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنا سکیں۔ ہمارے اکابر نے ہر دور میں یہ عمل سرانجام دیا ہے اور آج بھی یہ عمل ہم سے پیش رفت کا متقاضی ہے۔‘‘
اگر اہل مدارس کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہے تو علماء کو ہر میدان میں آنا ہی ہوگا، مدارس کے طلبہ ڈاکٹر بھی بنیں، انجینیر بھی اور وکیل بھی۔ جب مدارس کے فارغین اپنے علم وعقیدے اور اسلامی طرز زندگی، لائف اسٹائل کے ساتھ دوسرے میدانوں میں پہنچیں گے اور بڑی تعداد میں پہنچیں گے اور لوگ ان کے افکار، نظریات اور لائف اسٹائل سے واقف ہوں گے تو ان کے دلوں پر ضرور اس کے مفید اثرات پیدا ہوں گے۔
صرف چند سال پہلے تک اس معاملے میں علماء کی رائے بڑی مختلف تھی مگر آج کے مخصوص حالات اور ماحول میں اب بیشتر علماء کی رائے یہ بن رہی ہے کہ مدارس کو اپنا مستقبل اگر روشن بنانا ہے اور خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے بلکہ بدلے ہوئے حالات میں اپنے آپ کو ثابت کرنا ہے تو انہیں اپنے نظام تعلیم وتربیت میں اور مدارس کے نصاب میں خاطر خواہ تبدیلیاں کرنی ہی ہوں گی، اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حال میں فارغ ہونے والے طلبہ مدارس کی ایک بڑی تعداد کی بہت پختہ رائے اور پرزور مطالبہ ہے کہ مدارس کے نصاب تعلیم کو تھوڑی بہت کمی وبیشی کے ساتھ اسکولوں کے نصابِ تعلیم کے مماثل ہی کردیا جائے۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ دسویں یا بارہویں جماعت تک کی تعلیم تھوڑی بہت کمی وبیشی کے ساتھ اسکول کی تعلیم کے مساوی ہو، اس کے بعد جسے اسلامک اسٹڈیز کے جس شعبے میں جانا ہے وہ اس شعبے میں جائے اور دینیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔موجودہ علماء کی نوجوان نسل میں بہت کم ایسے ہوں گے جو اس رائے سے منحرف نظر آئیں گے۔تاہم پھر بھی معلوم نہیں کیوں ایسا ہے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھتی۔اب تک تو نہیں چڑھی اور مستقبل قریب میں اس حوالے سے کسی طرح کی خوش گمانی پتہ نہیں کیوں بدگمانی جیسی لگتی ہے۔
آج ملک کے حالات بہت دگرگوں ہیں، ایسے حالات میں اگر اسلامی مدارس کو زندہ رہنا ہے اور دین کے لیے اسی پلیٹ فارم سے کام کرنا ہے تو مدارس کو اپنے اندر کئی طرح کی تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔
پہلی تبدیلی نصاب تعلیم کے حوالےسے کرنی ہوگی، دوسری طریقہ تدریس کے تعلق سے اور تیسری بڑی تبدیلی یہ کرنی ہوگی کہ بھارت کے تمام مدارس ایک مضبوط نیٹ ورک سے جڑ جائیں۔
نصاب کی تبدیلی یہ ہے کہ دسوی یا بارہویں جماعت تک تھوڑی بہت ترمیم اور حذف واضافے کے ساتھ مدارس کا نصاب تعلیم بھی اسکولوں کے نصاب تعلیم کے مساوی کر دیا جائے۔
طریقہ تدریس کی تبدیلی کا یہ مطلب ہے کہ طریقہ تدریس محض خطابی اور تقریری نوعیت کا نہ رہے بلکہ تفہیم کا پہلو غالب رہے، پھر اس میں جدید آلات کا بھر پور اور صحیح استعمال ہو اور ساتھ ہی مسلکی عصبیتیں اور گروہ بندیوں والی سوچ طلبہ کے دماغ میں نہ ڈالی جائے۔
اور مضبوط نیٹ ورک سے جڑنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام مدارس اسلامیہ کا ایک غیر سرکاری وفاق عمل میں لایا جائے، جس کو چلانے والے سرکردہ علماء اور قوم کے بہی خواہ لوگ ہوں اور وہ چھوٹے بڑے تمام مدارس کو ایک مضبوط نیٹ ورک سے جوڑ دیں، مدارس اور اہل مدارس کی خود مختاری کو باقی رکھتے ہوئے ان کے لیے باہر سے ہر طرح کی امداد فراہم کریں اور خاص کر ان کے لیے قانونی لڑائی لڑیں۔
ان تینوں پہلوؤں سے اگر خاطر خواہ تبدیلیاں کرلی گئیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ مدارس اپنے وجود کی کشتی کو وقت کی طوفان خیز لہروں سے صحیح سلامت گزار لے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔
مدارس میں تعلیم وتربیت کا نظم کرنے والے اہل بست وکشاد اور درس وتدریس سے وابستہ علماء جتنی جلدی اس معاملے میں پیشرفت کرتے ہیں ان کے لیے اتنی ہی جلدی روشن مستقبل کے دروازے کھل جائیں گے اور وہ اس معاملے میں جتنی زیادہ تاخیر اور لیت ولعل سے کام لیں گے ان کا نقصان اسی نسبت سے بڑھتا چلا جائے گا۔

ابوفہد ندوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button