- Advertisement -

ملبے کا ڈھیر

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

ملبے کا ڈھیر

کامنی کے بیاہ کو ابھی ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ اس کا پتی دل کے عارضے کی وجہ سے مر گیا اور اپنی ساری جائیداد اس کے لیے چھوڑ گیا۔ کامنی کو بہت صدمہ پہنچا، اس لیے کہ وہ جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ اس کی ماں عرصہ ہوا اس کے باپ کو داغ مفارقت دے گئی تھی۔ اگر وہ زندہ ہوتی تو کامنی اس کے پاس جا کر خوب روتی تاکہ اسے دم دلاسہ ملے۔ لیکن اُسے مجبوراً اپنے باپ کے پاس جانا پڑا جو کاٹھیاواڑ میں بہت بڑا کاروباری آدمی تھا۔ جب وہ اپنے پرانے گھر میں داخل ہوئی تو سیٹھ گھنشام داس باہر برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ غالباً اپنے کاروبار کے متعلق سوچ رہے تھے۔ جب کامنی ان کے پاس آئی تو وہ حیران سے ہو کر رہ گئے۔

’’کامنی‘‘

کامنی کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، وہ اپنے پتا سے لپٹ گئی اور زارو قطار رونے لگی۔ سیٹھ گھنشام داس نے اس کو پچکارا اور پوچھا

’’کیابات ہے ؟‘‘

کامنی نے کوئی جواب نہ دیا اور روتی رہی۔ سیٹھ جی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کیا ہے۔ انھوں نے صرف ایک ہی چیز کے متعلق سوچا کہ شاید میری بیٹی کے پتی نے اس سے کوئی زیادتی کی ہے جس کے باعث اس کو بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس سے پوچھا

’’کیوں بیٹی۔ کیا رنچھوڑ نے کوئی ایسی ویسی بات کی ہے؟‘‘

اس پر کامنی اور بھی زیادہ رونے لگی۔ سیٹھ گھنشام داس نے بہت پوچھا مگر کامنی نے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر تنگ آگئے اور جھنجھلا کر کہا

’’مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ تم نے میرا آدھا گھنٹہ خراب کر دیا ہے۔ بولو کیا بات ہے ؟‘‘

کامنی نے اپنی آنسو بھری آنکھوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور کہا

’’ان کا دیہانت ہو گیا ہے‘‘

سیٹھ گھنشام نے اپنی دھوتی کالانگ درست کیا اور پوچھا۔ کس کا ؟‘‘

کامنی نے ساڑھی کے پلو سے آنسوخشک کیے۔

’’وہی جن سے آپ نے میرا ویاہ کیا تھا۔ ‘‘

سیٹھ گھنشام سکتے میں آگئے۔

’’کب ؟‘‘

’’پرسوں‘‘

’’تم نے مجھے اطلاع بھی نہ دی‘‘

کامنی نے کہا

’’میں نے آپ کو تار دیا تھا۔ کیا ملا نہیں آپ کو ؟‘‘

اس کے باپ نے تھوڑی دیر سوچا

’’کل تار تو کافی آئے تھے۔ مگر مجھے اتنی فرصت نہیں تھی کہ انھیں دیکھ سکوں۔ اب میں پیڑھی جارہا ہوں۔ ہوسکتا ہے ان تاروں میں تمہارا تار بھی ہو‘‘

کامنی دو دن اپنے باپ کے پاس رہی اس کے بعد واپسی بمبئی چلی آئی اور اپنے شوہر کی جائیداد اپنے نام منتقل کروانے میں مشغول ہو گئی۔ رنچھوڑ کا صرف ایک بھائی تھا مگر اس کا جائیداد پر کوئی حق نہیں تھا، اس لیے کہ وہ اپنا حصہ وصول کر چکا تھا۔ کامنی جب اس کام سے فارغ ہو گئی تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ کاٹھیاواڑ گجرات میں دس مکان، احمد آباد میں پانچ، بمبئی میں سات، ان کا کرایہ پر ماہ اُسے مل جاتا جو پانچ ہزار کے قریب ہوتا یہ سب روپے وہ اپنے منیم کے ذریعے سے وصول کرتی اوربینک میں جمع کرا دیتی۔ ایک برس کے اندر اس کے پاس ایک لاکھ روپیہ جمع ہو گئے اس لیے کہ اُس کے شوہر نے بھی تو کافی جائیداد چھوڑی تھی۔ وہ اب بڑی مالدار عورت تھی۔ دولت کے نشے نے اُس کے سارے غم دُور کردیے تھے۔ لیکن اُس کو کسی ساتھی کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ رات کو اکثر اسے نیند نہ آتی۔ گھر میں چار نوکر تھے جو اُس کی خدمت کے لیے چوبیس گھنٹے تیار رہتے۔ ہر قسم کی آسائش میسر تھی۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں خلا محسوس کرتی تھی۔ جیسے موٹر کا ٹائر تو ہے ثابت و سالم مگر اس میں ہوا کم ہے۔ پچک پچک جاتا ہے۔ ایک روز وہ بڑی افسردہ حالت میں باہر برآمدے میں لٹکے ہوئے پنگھوڑے پر بیٹھی تھی کہ اس کا منیم آیا۔ کامنی اسے صرف منیم جی کہتی تھی۔ وہ عام منیموں جیسا بڈھا اور جھڑوس نہیں تھا۔ اُس کی عمر یہی تیس برس کے قریب ہو گی۔ صاف ستھرا۔ دھوتی بڑے سلیقے سے باندھتا تھا۔ خوش شکل اور تندرست و توانا تھا۔ پہلی مرتبہ کامنی نے اُسے غور سے دیکھا اور جھولا جھولتے ہوئے اس کے پرنام کا جواب دیا اور اُس سے پوچھا۔

’’کیوں منیم جی آپ کیسے آئے ؟‘‘

منیم نے اپنا بستہ جو اس کی بغل میں تھا نکالا۔ کھولنے ہی والا تھا کہ کامنی نے اس سے کہا

’’رہنے دیجیے حساب کتاب، چلیے چائے پئیں‘‘

دونوں اندر چلے گئے۔ چائے تیار تھی، گجراتی انداز کی۔ منیم کچھ جھینپا، اس لیے کہ وہ اس کا ملازم تھا اور دو سو روپے ماہوار لیتا تھا مگر کامنی نے اصرار کیا کہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھے۔ چائے کے ساتھ نمکین بسکٹ، کھاری سینگ ( نمک لگی مونگ پھلی) اور دال مونٹھ اور کچھ اسی قسم کی تین چار چیزیں اور تھیں۔ کامنی غور سے منیم کو دیکھ رہی تھی جو پہلی مرتبہ اس نوازش سے دو چار ہوا تھا۔ کامنی نے چائے کا ایک گھونٹ پی کر اُس سے پوچھا

’’منیم جی آپ کا نام کیا ہے؟‘‘

نوجوان منیم کے ہاتھ سے بسکٹ گر کر چائے کی پیالی میں ڈبکیاں لگانے لگا

’’جی میرا۔ میرا نام۔ رنچھوڑ داس ہے۔ ‘‘

کامنی کے ہاتھ سے چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی۔

’’رنچھوڑ داس‘‘

جی ہاں‘‘

یہ تو میرے سورگ باشی پتی کا نام ہے‘‘

منیم نے کہا

’’مجھے معلوم ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں اپنا نام بدل لوں گا‘‘

کامنی نے ایک بار پھر منیم کو غور سے دیکھا

’’نہیں نہیں۔ یہ نام مجھے پسند ہے۔ ‘‘

چائے کا سلسلہ ختم ہوا تو منیم نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ ایک بلڈنگ پانچ منزلہ بنانے کا ٹھیکہ انھیں مل سکتا تھا۔ اُس نے کامنی سے کہا کہ اس سودے میں کم از کم پچاس ہزار روپے بلکہ اس سے زیادہ بچ جائیں گے۔ کامنی کے پاس کافی دولت موجود تھی اس کو کسی قسم کا لالچ نہیں تھا۔ لیکن منیم کے مشورے کو وہ نہ ٹال سکی۔ اس نے کہا

’’ہاں منیم جی۔ میں یہ ٹھیکہ لینے کے لیے تیار ہوں اس لیے کہ آپ چاہتے ہیں‘‘

منیم کی باچھیں کھل گئیں

’’بائی جی۔ ٹھیکہ کیا ہے بس سونا ہی سونا ہے‘‘

’’سونا ہو یا لوہا۔ آپ کو روپیہ کتنا چاہیے؟‘‘

’’دس ہزار‘‘

’’کل دس ہزار ؟‘‘

’’جی نہیں۔ یہ تو فوکٹ میں جائے گا۔ میرا مطلب ہے کہ رشوت میں۔ جب ٹھیکہ مل جائے گا تو ہم اُسے کسی اور کے حوالے کر دیں گے اور اپنے پیسے کھرے کر لیں گے‘‘

کامنی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی

’’ٹھیکہ مل جائے گا تو آپ اسے کسی دوسرے آدمی کے حوالے کیوں کریں گے ؟‘‘

منیم ہنسا۔

’’بائی جی۔ یہ دنیا اسی طرح چلتی ہے۔ ہم محنت کیوں کریں۔ دس ہزار دیں گے۔ یہ کیا کم ہے اور سالا جس کو ہم دیں گے ہزاروں کمائے گا۔ ‘‘

کامنی کے دماغ میں روپے پیسے نہیں تھے وہ بار بار منیم کو دیکھ رہی تھی۔ منیم کو بھی اس کا علم تھا کہ وہ اس کی ذات میں دلچسپی لے رہی ہے۔ تھوڑی دیر ٹھیکے بارے میں گفتگو ہوتی رہی لیکن بالکل ٹھس اور بے کیف۔ اچانک منیم نے کامنی کا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسرے کمرے میں لے گیا۔ منیم اور کامنی دیر تک اُس کمرے میں رہے۔ منیم اپنی دھوتی کا لانگ ٹھیک کرتے ہوئے باہر نکلا۔ بیڑی سلگا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں زردرو کامنی آئی اور اس کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ منیم نے اس سے کہا

’’بائی جی تو وہ دس ہزار کا چیک لکھ دیجئیے‘‘

کامنی اُٹھی۔ اپنی ساڑھی کے پلو میں اُڑسے ہوئے چابیوں کے چھلے کو نکالا اور الماری کھول کر چیک بک نکالی اور دس ہزار روپے کا چیک کاٹ کر منیم کو دے دیا۔ منیم نے یہ چیک اپنی واسکٹ میں رکھا اور کامنی سے کہا

’’اچھا تو میں چلتا ہوں۔ کل کام ہو جائے گا‘‘

دوسرے روز کام ہو گیا ٹھیکہ مل گیا اب اس کو ٹھکانے لگانے کا کام باقی رہ گیا تھا منیم کامنی بائی کے پاس آیا۔ دونوں کچھ دیر دوسرے کمرے میں رہے اس دوران میں سب باتیں ہو گئیں۔ اب یہ مرحلہ باقی رہ گیا کہ ٹھیکہ کس کے نام فروخت کیا جائے۔ کوئی ایسی پارٹی ہونی چاہیے کہ جو یک مشت روپیہ ادا کر دے۔ منیم ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے کافی دوڑ دھوپ کی آخر ایک پارٹی ڈُھونڈ نکالی جس نے دو لاکھ روپیہ یک مشت ادا کردیا۔ اور بلڈنگ کا کام شروع ہو گیا۔ منیم نے جب دو لاکھ روپے کامنی کو دیے تو اسے کوئی خاص خوشی نہ ہوئی۔ البتہ وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے گئی۔ جہاں وہ دیر تک زیر تعمیر بلڈنگ کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ بلڈنگ کا کام دن رات جاری تھا۔ پانچ سو مزدور کام کررہے تھے۔ پانچ منزلہ عمارت بن رہی تھی۔ اُدھر کامنی اور اُس کا منیم دوسرے کمرے میں کئی منزلیں طے کر چکے تھے۔ منیم بہت خوش تھا کہ اس نے بہت اچھا سودا کیا۔ دو لاکھ روپے بغیر کسی محنت کے وصول ہو گئے لیکن جس پارٹی نے یہ ٹھیکہ خریدا تھا اس کو اپنی دانست کے مطابق خسارہ ہی خسارہ نظر آرہا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اسے زیادہ منافع کی اُمید نہیں تھی۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ بلڈنگ پانچوں منزل تک پہنچ گئی۔ پانچ سو مزدور دن رات عمارت سازی میں مصروف تھے۔ رات کو گیس کے لیمپ روشن کیے جاتے سیمنٹ اور بجری کو ملا کر مشین چلتی رہتی۔ مزدوروں میں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی تھیں جو مردوں کے مقابلے میں بڑی تن دہی سے کام کرتی تھیں اپنے شیر خوار بچوں کو جو نیچے زمین پر پڑے ہوئے دودھ بھی پلاتیں اور سیمنٹ بجری اُٹھا کر پانچویں منزل تک پہنچاتیں۔ کامنی کے دوسرے کمرے میں ایک دن یہ طے ہوا کہ وہ شادی کر لیں۔ دوسرے دن صبح اخبار میں منیم نے پڑھا کہ وہ بلڈنگ جو تعمیر ہو رہی تھی ناقص مسالہ استعمال کرنے کے باعث اچانک گر گئی۔ پچاس مزدور نیچے دب گئے۔ اُن کی لاشیں نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ منیم کامنی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔ جب کامنی نے یہ خبر سنی تو اُس نے منیم کو دھکا دے کر ایک طرف کر دیا جیسے وہ ملبے کا ڈھیر ہے۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از خواجہ حیدر علی آتش