گھر برسنے لگے ہیں بارش میں
غم ٹپکنے لگے ہیں بارش میں
پارۂ ابر کے پگھلنے سے
زخم کھلنے لگے ہیں بارش میں
چھت پہ رکھے تھے سُوکھنے کے لیے
خواب بِھگنے لگے ہیں بارش میں
تار در تار قطرہ در قطرہ
دل امڈنے لگے ہیں بارش میں
ہجر مٹّی میں اَٹ گئے تھے جودن
وہ بھی دھُلنے لگے ہیں بارش میں
بھیگتی کھڑکیوں سے باہر دیکھ
لوگ ملنے لگے ہیں بارش میں
دھڑکنیں دل کی بڑھ گئیں خاور
ڈھول بجنے لگے ہیں بارش میں
ایوب خاور