قرآن کو سمجھنے سے پہلے مجھے لگتا تھا کہ یہ کتاب صرف مخصوص مواقع کے لیے ہے، جیسے کسی کے انتقال پر اس کا ختم کروا لینا، یا جب کوئی نیا گھر بنے تو برکت کے لیے چند پارے پڑھوا لینا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کتاب میری اپنی زندگی کے لیے ہے، میری ہدایت کے لیے ہے، میرے ہر دن اور ہر لمحے کے لیے ہے۔ لیکن جب میں نے اسے سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ یہ کتاب محض تلاوت کے لیے نہیں، بلکہ زندگی کو سنوارنے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ہے۔
پہلے مجھے قرآن سے ایک عجیب سی جھجک محسوس ہوتی تھی، جیسے یہ کوئی ایسی کتاب ہے جسے پڑھنے سے زندگی میں کوئی بھاری آزمائش آ سکتی ہے۔ لیکن جب میں نے قرآن کو سمجھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو سراسر رحمت ہے، سراسر روشنی ہے۔ اب مجھے اس سے خوف نہیں آتا، بلکہ سکون ملتا ہے۔ اللہ کے احکامات پر عمل کرنا پہلے کی نسبت آسان لگتا ہے۔ یہ کتاب صرف عبادات کی رہنمائی نہیں کرتی بلکہ زندگی کے ہر پہلو کے لیے ہدایت دیتی ہے۔
قرآن پڑھتے ہوئے کئی آیات دل پر اثر انداز ہوئیں، مگر جس آیت نے مجھے سب سے زیادہ جھنجھوڑا وہ یہ تھی:
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًاۚ (الجمعة: 5)جنہیں تورات کا علم دیا گیا، مگر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو کتابیں لادے ہوئے ہو۔
یہ آیت پڑھ کر میں کانپ گئی۔ اگر میں سارا قرآن پڑھ بھی لوں، ساری تفسیر سمجھ بھی لوں، لیکن اگر میرا عمل نہ بدلا، تو میرا حال بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے اپنے دل سے عہد کر لیا کہ اب قرآن میری زندگی کا حصہ بنے گا، صرف الفاظ کی صورت میں نہیں، بلکہ میرے عمل میں بھی۔
اسی سفر میں اللہ نے مجھے ماں بنایا۔ اور جب بچوں کو اپنی گود میں پایا تو ایک نیا احساس جاگا۔ میرے پاس دین کا علم نہیں تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میرے پاس دین کا علم نہیں ہوگا، تو میں اپنے بچوں کو کیسے سکھاؤں گی؟ ماں ہی تو بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اگر میرے پاس روشنی نہ ہو تو میں ان کے لیے چراغ کیسے جلاؤں گی؟
یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے یہ عہد مزید پختہ کر لیا کہ میں نہ صرف خود دین سیکھوں گی بلکہ اپنی نسلوں تک اس روشنی کو پہنچاؤں گی۔ اگر میں خود نہیں جانتی کہ زندگی کا اصل مقصد کیا ہے، تو میں اپنی اولاد کی رہنمائی کیسے کروں گی؟ اگر مجھے خود یہ معلوم نہیں کہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راستہ کیا ہے، تو میں اپنی نسل کو بھٹکنے سے کیسے بچاؤں گی؟ یہی احساس میرے لیے سب سے بڑی تحریک بنا۔ میں نے طے کر لیا کہ میں قرآن کو محض ایک کتاب نہیں، بلکہ اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی کا حقیقی دستور بناؤں گی۔
میں اپنے بچوں کو دین بوجھ بنا کر نہیں بلکہ محبت اور آسانی سے سکھاؤں گی۔ میں انہیں صرف زبانی نصیحتیں نہیں دوں گی، بلکہ اپنے عمل سے انہیں سکھاؤں گی کہ قرآن ہی وہ روشنی ہے جو ہر اندھیرے کو مٹا سکتی ہے۔
قرآن کے ساتھ یہ تعلق محض میرا نہیں رہا، بلکہ ایک نسل کا مقدر سنوارنے کا ذریعہ بن گیا۔ یہ میرا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اگر میں اپنے بچوں کو اچھے لباس، اچھے کھانے اور اچھی تعلیم دوں مگر انہیں اللہ کی پہچان نہ سکھاؤں، تو میں نے ان کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی کی۔ اللہ نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں قرآن سے جڑوں، اسے سمجھوں اور اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کروں۔
یہ میرا سفر تھا، لیکن یہیں اختتام نہیں! بلکہ ایک نئی شروعات ہے۔ قرآن ایک ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی کبھی ختم نہیں ہوتی، اور میں اس روشنی میں ہمیشہ آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔ میں نے چھ سال لگا کر قرآن کو سمجھنے کا ایک سنگ میل عبور کیا، مگر اصل کامیابی تب ہوگی جب یہ قرآن میری زندگی میں مکمل طور پر اتر جائے۔ میری سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ جب میں دنیا سے جاؤں تو قرآن میرے حق میں گواہی دے، نہ کہ میرے خلاف!
آخر میں یہی دعا ہے کہ ہمیں قرآن کی حقیقی سمجھ عطا فرما، اسے ہماری زندگیوں میں اترنے والا بنا دے، ہمارے عمل کو اس کے مطابق کر دے، اور جب ہم تیرے حضور حاضر ہوں تو یہ قرآن ہمارے حق میں گواہ بنے، نہ کہ ہمارے خلاف۔ ہماری نسلوں کو بھی اس نور سے منور کر دے، اور ہمیں آخرت میں ان لوگوں میں شامل کر جو تیرے کلام کے سچے حامل ہیں۔
آمین یا رب العالمین!
طاہرہ فاطمہ





