- Advertisement -

سوچوں تو خیال اور بھی ہیں

شازیہ اکبر کی اردو غزل

سوچوں تو خیال اور بھی ہیں
فی الحال سوال اور بھی ہیں

سینے میں دبا رکھا ہے جن کو
کچھ ایسے ملال اور بھی ہیں

دیتے جو نہیں تمھیں دکھائی
ٹوٹے پروبال اور بھی ہیں

ہونا ہے ہنوز جن کا قیدی
آواز کے جال اور بھی ہیں

پروا ہی نہیں ہے زندگی کی
جیسے مہ و سال اور بھی ہیں

اک بار ملے تو ہم نے جانا
آثارِ وصال اور بھی ہیں

ہر موج میں دیکھا ہے اتر کے
امواج ِ جمال اور بھی ہیں

تھا راحتِ جاں تصور اس کا
ہم مل کے نہال اور بھی ہیں

ہے شاذیہ جو مرا مسیحا
اس لب کے کمال اور بھی ہیں

شازیہ اکبر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم