زندگی ایک ماجرا تو ہے
محو رہنے کا فلسفہ تو ہے
مِلتے ہیں وہ خیال میں تو کیا ؟
کچھ بھی ہے،اُن سے رابطہ تو ہے
وہ نہیں ، یاد ہی سہی اُن کی
زندہ رہنے کا راستہ تو ہے
جو مِلاتا ہے ہم کو آپس میں
اِک محبّت کا سِلسلہ تو ہے
کیسے بِچھڑا تھا ، تذکرہ اب کیا ؟
قافلے میں وہ آ مِلا تو ہے
خُود کشی بات ہے بُری ، لیکن
جان دینے کا حوصلہ تو ہے
وہ نظر کا نظر سے ٹکرانا
ایک چھوٹا سا حادثہ تو ہے
بے سبب ہو رہا ہوں میں غمگیں
دِل کا غم سے بھی واسطہ تو ہے
کیا کہا ؟کوئی مسئلہ ہی نہیں
مسئلہ خیر ۔۔۔۔۔۔ مسئلہ تو ہے
شاعری اور کچھ نہ ہو یارو !
ایک پیارا سا مشغلہ تو ہے
شعر آمد سہی ، مگر کیفی
آخرش تُو بھی سوچتا تو ہے
محمود کیفی