آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریصغیر احمد صغیر

جو زندگی تھی آج کل وہ زندگی نہیں رہی

ایک اردو غزل از صغیر احمد صغیر

جو زندگی تھی آج کل وہ زندگی نہیں رہی
ہماری چاہ اس کی خوبصورتی نہیں رہی

ہمیں خرد نے آ لیا تو مصلحت نے آپ کو
سو دوستی تو رہ گئی وہ تشنگی نہیں رہی

جو سب میں بانٹتی رہی محبتیں رفاقتیں
سنا ہے مندروں میں اب وہ مورتی نہیں رہی

میں اب کے سال اپنے گاؤں عید پر نہیں گیا
وہ شدتوں سے منتظر کبھی جو تھی، نہیں رہی

جو دوستی ہے آپ سے یہ دوستی عجیب ہے
ہماری آپ سے کبھی برابری نہیں رہی

جب اس کا انتخاب تھے ہم ایک باد شاہ تھے
وہ بچوں والی ہو گئی تو سر پھری نہیں رہی

میں اس کو ایک بات کا یقیں دلا نہیں سکا
کہ دل میں آج تک کوئی بھی آپ سی نہیں رہی

صغیر یعنی ارتقائے وقت کا یہ کھیل ہے
کسی کے ساتھ ہو کے بھی جو ہمرہی نہیں رہی

صغیر احمد صغیر

صغیر احمد صغیر

پورا نام: ڈاکٹر صغیر احمد قلمی نام: صغیر احمد صغیر جائے پیدائش؛ رحیم یار خان. 1967. ابتدائی تعلیم: میٹرک: گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول، صادق آباد گریجویشن: خواجہ فرید گورنمنٹ کالج، رحیم یار خان ۔اعلٰی تعلیم: ایم ایس سی ذوآلوجی: پنجاب یونیورسٹی ایم اے تاریخ: پنجاب یونیورسٹی ایم فل؛ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان پی ایچ ڈی: بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان پیشہ: قوم کے بچوں کو حیاتیات پڑھاتے گزر گئی۔ ادبی سفر کا آغاز : اسّی کی دہائی سے لکھنا شروع کیا، پہلا شعری مجموعہ، (بھلا نہ دینا) میں اسّی اور نوّے کی دہائی کی شاعری شامل ہے۔ شرف ِ تلمذ : جناب امجد اسلام امجد اور جناب زاہد آفاق ایک شعری مجموعہ: بھلا نہ دینا رہائش.... لاہور ۔اخبارات یا رسائل سے وابستگی: پی ایچ ڈی شروع کرنے سے پہلے روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ خبریں اور بیاض میرے مضامین، کالم اور کلام شائع ہوتا تھا۔ اب دوبارہ سلسلہ شروع کرنے لگا ہوں۔ تعارفی شعر : اس عشق کے رستے کی بس دو ہی منازل ہیں یا دل میں اتر جانا ، یا دل سے اتر جانا (صغیر احمد صغیر)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button