منتظر ہیں پنگھٹوں کے راستے
پھول چہرے والیوں کے راستے
موسموں کی پیاس میں بنجر زمیں
دیکھتی ہے بارشوں کے راستے
اِ ن گھنی، بے چاند راتوں میں کہیں
جاگتے ہیں جگنوؤں کے راستے
جنگلوں کی خوشبوئیں،صبحوں کے رنگ
دیکھتے ہیں تتلیوں کے راستے
جن دنوں کی دھوپ نے سینچا ہمیں
کھو نہ جائیں اُن دنوں کے راستے
رات کچھ ایسی پڑی یادوں کی اوس
دھُل گئے سب منظروں کے راستے
ہر گلی میں تیری خوشبو بچھ گئی
سج گئے تنہائیوں کے راستے
ایوب خاور