- Advertisement -

مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا

تیمور حسن تیمور کی ایک اردو غزل

مجھ کو کہانیاں نہ سنا شہر کو بچا

باتوں سے میرا دل نہ لبھا شہر کو بچا

میرے تحفظات حفاظت سے ہیں جڑے

میرے تحفظات مٹا شہر کو بچا

تو اس لیے ہے شہر کا حاکم کہ شہر ہے

اس کی بقا میں تیری بقا شہر کو بچا

تو جاگ جائے گا تو سبھی جاگ جائیں گے

اے شہریار جاگ ذرا شہر کو بچا

تو چاہتا ہے گھر ترا محفوظ ہو اگر

پھر صرف اپنا گھر نہ بچا شہر کو بچا

کوئی نہیں بچانے کو آگے بڑھا حضور

ہر اک نے دوسرے سے کہا شہر کو بچا

لگتا ہے لوگ اب نہ بچا پائیں گے اسے

اللہ مدد کو تو مری آ شہر کو بچا

تاریخ دان لکھے گا تیمورؔ یہ ضرور

اک شخص تھا جو کہتا رہا شہر کو بچا

تیمور حسن تیمور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
تیمور حسن تیمور کی ایک اردو غزل