بہار آنے کی امید کے خمار میں تھا
خزاں کے دور میں بھی موسم بہار میں تھا
جسے سنانے گیا تھا میں زندگی کی نوید
وہ شخص آخری ہچکی کے انتظار میں تھا
سپاہ عقل و خرد مجھ پہ حملہ آور تھی
مگر میں عشق کے مضبوط تر حصار میں تھا
مرا نصیب چمکتا بھی کس طرح آخر
مرا ستارا کسی دوسرے مدار میں تھا
اٹھا کے ہاتھ دعا مانگنا ہی باقی ہے
وگرنہ کر چکا سب کچھ جو اختیار میں تھا
اسے تو اس لیے چھوڑا تھا وہ نہتا ہے
خبر نہ تھی کہ وہ موقع کے انتظار میں تھا
وہ کہہ رہا تھا مجھے ناز اپنے عجز پہ ہے
عجب طرح کا غرور اس کے انکسار میں تھا
تیمور حسن تیمور