تاروں کے سائے سائے بہت دور جائیں گے
شاید کہ آسماں کے مضافات آئیں گے
الفاظ پر طلسمِ خیالات پھونکیے
اشعار اپنے آپ ہی جادو جگائیں گے
جاگو تو ہاتھ آتی ہیں خوابوں کی کترنیں
ہم خواب جوڑ جوڑ کے رلی بنائیں گے
اٌلٹے قدم چلیں گے زمانے کی راہ پر
گزرے ہوؤں کا نام و نشاں ڈھونڈ لائیں گے
بنتے بگڑتے رہتے ہیں آواز کے نقوش
لہروں کے اِرتعاش سے یہ جھلملائیں گے
فرشِ توہمات میں کھودیں گے اک سرنگ
اس راستے سے کوئے اساطیر جائیں گے
دنیا میں زندگی کا ہے سرکس لگا ہوا
ہم سب تماشبین ہیں کرتب دکھائیں گے
رقصاں رہیں گی سامنے تاعمر خواہشیں
اِن اپسراؤں کو کبھی ہم چھو نہ پائیں گے
ایسی غزل ہوئی ہے کہ چکرا گئے خیال
سلمان بن پیے بھی ذرا ڈگمگائیں گے
سلمان ثروت