وقت پر سے نقاب اُٹھا دیا ہے
خواب جیسا بھی تھا سُنا دیا ہے
بارِ دوش اس لیے بنا تھا کیا
کچھ اُتارا ہے کچھ گرا دیا ہے
وصل میں اب خلل نہیں پڑتا
ہجر کا دائرہ بڑھا دیا ہے
کچھ اضافہ کیا ہے کچھ ترمیم
خود کو اک واقعہ بنا دیا ہے
ہم کسی دھول کی بھی دھول نہیں
ہمیں مٹی نے یوں بھلا دیا ہے
وقت بے وقت کی خموشی نے
وقت پر بولنا سکھا دیا ہے
شامِ تنہائی تجھ سے کیسا حساب
تجھ کو اپنے علاوہ کیا دیا ہے
دُکھ سنا ہے بغور منزل کا
اور منزل کو راستہ دیا ہے
اب جگہ ہی جگہ ہے رہنے کو
گھر کے اندر کا گھر گرا دیا ہے
اک سر سامنے کا ہم اور تم
دوسرے کو کہیں گنوا دیا ہے
شاہین عباس