بنتے بنتے اپنے پیچ و خم بنے
تو بنا، پھر میں بنا ،پھر ہم بنے
ایک آنسو تھا گرا اور چل دیا
ایک عالم تھا سو دو عالم بنے
اک قدم اُٹھا کہیں پہلا قدم
خاک اُڑی اور اپنے سارے غم بنے
اپنی آوازوں کو چپ رہ کر سُنا
تب کہیں جا کر یہ زیروبم بنے
آنکھ بننے میں بہت دن لگ گئے
!دیکھیے کب آنکھ اندر نم بنے
زخم کو بے راہ روی میں راہ ملی
خون کے چھینٹے اُڑے عالم بنے
ہم کہاں تھے اس سمے اس وقت جب
تیرے اندر کے یہ سب موسم بنے
چاک دشمن ہے ہمارا خوش رہے
صاحبو، ہم بار بار آدم بنے
شاہین عباس