جو دل قریب ہو پہلے نشانہ بنتا ہے
سو اس کا تیر مجھی پر چلانا بنتا ہے
یہ بوڑھی ماں کی طرح کچھ بھی کہہ نہیں سکتی
سو اس زمیں کا تمسخر اڑانا بنتا ہے
وہ گوری چھاؤں میں ہیں اور سیاہ دھوپ میں ہم
سو ان کا حق ہے ، انہی کا جلانا بنتا ہے
چراغ زاد ! چراغوں سے تیری بنتی نہیں
ہواؤں سے ہی ترا دوستانہ بنتا ہے
خرد کے آڑھتیوں کو یہ علم ہی تو نہیں
کہ خوب سوچ سمجھ کر دوانہ بنتا ہے
میں ہاتھ جوڑتا ہوں ناصحانِ شعلہ زباں
بہت دکھوں سے کوئی آشیانہ بنتا ہے
سعود عثمانی