اردو غزلیاتباقی صدیقیشعر و شاعری

بے نشاں رہتے بے نشاں ہوتے

باقی صدیقی کی ایک اردو غزل

بے نشاں رہتے بے نشاں ہوتے
تم نہ ہوتے تو ہم کہاں ہوتے

مہر و مہ کو نہ یہ ضیا ملتی
آسماں بھی نہ آسماں ہوتے

تم نے تفسیر دو جہاں کی ہے
ورنہ یہ راز کب عیاں ہوتے

تم دکھاتے اگر نہ راہ حیات
جانے کس سمت ہم رواں ہوتے

ہمیں اپنی جبیں نہ مل سکتی
اتنے غیروں کے آستاں ہوتے

ایک انسان بھی نہ مل سکتا
گرچہ آباد سب مکاں ہوتے

کھل نہ سکتی کلی مسرت کی
غم ہی غم زیب داستاں ہوتے

مقصد زندگی نہ پا سکتے
اپنی ہستی سے بدگماں ہوتے

ہمیں کوئی نہ آسرا ملتا
بے اماں ہوتے ہم جہاں ہوتے

تو نے بخشی ہے روشنی ورنہ
دیدہ و دل دھواں دھواں ہوتے

باقی صدیقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button