طلسم حلقۂ سیارگاں میں کیا رہنا
کسی کی سلطنت بے اماں میں کیا رہنا
الگ جلایا ہے اپنا چراغ اس خاطر
تمام عمر صف دوستاں میں کیا رہنا
نہ جانے چھین لے کب ہم سے شاہ کا کردار
فریب عمر تری داستاں میں کیا رہنا
یہ وقت لمحۂ موجود کا تسلسل ہے
ملال خواہش آئندگان میں کیا رہنا
اگر وہ خرم و آباد ہے تو پھر شہزادؔ
ہمیں بھی اب کسی کار زیاں میں کیا رہنا
قمر رضا شہزاد