دل کے کہنے پر بھلا کیسے مَیں صحرا چھوڑتا
بے سبب کوئی نہیں یوں بھی محل٘ہ چھوڑتا
یہ بھی دنیا دار بنتا جا رہا ہے دیکھ لے
یار کچھ درویش کا حٌجرہ تو کچ٘ا چھوڑتا
سب کی ہی یادیں جڑی ہوں گی در و دیوار سے
کون آبائی مکاں میں اپنا حص٘ہ چھوڑتا
ہاں مری کوشش تھی وہ خود بھی کنویں میں آ گرے
کھینچنے والا مجھے شاید نہ رس٘ہ چھوڑتا
اب دکاں اتنی بڑھا بیٹھا ہوں بس افسوس ہے
کچھ عزاداروں کی خاطر بھی تو رستہ چھوڑتا
ایک دو زخموں کے سینوں پر نشاں رہ جائیں گے
ہر مہاجر تو نہیں سارا علاقہ چھوڑتا
ہم کرایہ دار لوگوں کے مسائل جو بھی ہوں
مَیں دِیا خالی مکاں میں ایک جلتا چھوڑتا
صرف یہ محسوس کر سکتا کہ تٌو ہے ہی نہیں
چھوڑنے والے مجھے اتنا تو تنہا چھوڑتا
یہ توقع ہے کسی کے لوٹ آنے کی ضمیر
آدمی کھانا نہیں برتن میں آدھا چھوڑتا
ضمیر قیس