آنسوؤں پر پلی بڑھی ہوں میں
بنت حوا کی بے بسی ہوں میں
پہلے میں زخم اک ہرا سا تھا
آج کل گہرا جامنی ہوں میں
لڑکیاں بھی عجیب ہوتی ہیں
کہتی ہیں "پاپا کی پری ہوں میں”
مجھ کو لکھنا نہ انتسابوں میں
تیرا تو حرف آخری ہوں میں
لوگ اب بھی یہی سمجھتے ہیں
آپ میرے ہیں،آپ کی ہوں میں
آسماں جیسا اک خیال ہے وہ
سوچ گہری سمندری ہوں میں
مدتوں بعد خود کو بخشا ہے
اپنی غلطی پہ ہنس پڑی ہوں میں
بات کرتی ہوں صاف گوئی سے
یعنی حد سے بڑھی ہوئی ہوں میں
چائے اچھی بناتی ہوں شہلا
چائے میں چاہ گھولتی ہوں میں
شہلا خان