غالب اور میر: مطالعے کے چند پہلو
شمس الرحمن فاروقی کی اردو تحریر
غالبؔ نے میرؔ سے بار بار استفادہ کیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غالب اور میر ایک ہی طرح کے شاعر تھے۔ یعنی بعض مظاہر کائنات اور زندگی کے بعض تجربات کو شعر میں ظاہر کرنے کے لیے دونوں ایک ہی طرح کے وسائل استعمال کرنا پسند کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ غالب کا اسلوب میر سے مستعار ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ زندگی کے کسی موقع یا منزل پر غالب نے طرزِ میر کو اختیار کرنے کی کوشش کی۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ دونوں شاعروں کی ذہنی ساخت اور طرزِ فکر میں مماثلت تھی۔ عملی سطح پر اس ساخت اور طرزِ فکر کا اظہار اسلوب سے زیادہ رویے اور ان چیزوں کے انتخاب میں ہے، جن کے ذریعہ دونوں شاعروں نے مظاہر کائنات اور زندگی کے تجربات کو ظاہر کیا ہے۔
میر نے فارسی شعراء سے استفادہ کیا ہے لیکن ان کا استفادہ تحسین کی قسم کا ہے، یعنی اگر انہیں کسی شاعر کے یہاں کوئی مضمون یا گوشہ پسند آیا تو انہوں نے بھی اس کو اختیار کر لیا۔ اس کے برخلاف غالب نے میر کے ساتھ وہ برتاؤ کیا جو کوئی بڑا شاعر ایسے اپنے کسی بڑے پیش رو کے ساتھ کرتا ہے یعنی انہوں نے میر کے تجربات اور وسائل اظہار کو اپنا مشعلِ راہ بنایا۔ غالب اور میر کا وہی معاملہ ہے، جو مثلاً ازراپاؤنڈ اور وسط لاطینی شعراء کا تھا یعنی پاؤنڈ نے وسط لاطینی شعراء کی طرح سوچنے کی کوشش کی، لکھا مگر اپنی طرح۔ میرؔ کو زبانی خراجِ عقیدت بہت پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں ناسخ بھی ہیں، جنہوں نے میر سے کچھ حاصل نہ کیا۔ ان میں آتش کے شاگرد رند بھی ہیں، جو آتشؔ، ناسخؔ اور خود کو طرزِ میرؔ کا شاعر بتاتے ہیں۔ چنانچہ رند کا شعر ہے،
شیخ ناسخؔ خواجہ آتش کے سوا بالفعل رندؔ
شاعرانِ ہند میں کہتے ہیں طرزِ میرؔ ہم
حالاں کہ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ رندؔ کے یہاں ایک شعر بھی میر کی طرح کا نہیں۔ آتشؔ نے میرؔ کے مضامین بہت اڑائے لیکن نہ ان کا ذہن میر کا ساتھا، نہ تخیل، نہ مزاج۔ لہٰذا آتش کا کلام میر کے مضامین کا مقتل بن گیا ہے۔ ناسخؔ نے خود میر کی تعریف کی ہے لیکن ناسخ کو بھی میر کی فہم نہ تھی۔ فہم تو بعد کی بات ہے، ناسخ کو زبان پر اس طرح کی قدرت بھی نہ تھی جو میر کا خاصہ ہے۔ یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ ناسخ یا رند یا ذوق میر کی طرح کے شاعر نہ تھے، اس لیے ان کی تعریفوں کو رسمی کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے یعنی یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے میر کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا اور ان کے تعریفی اشعار میر کی عظمت تو ثابت کرتے ہیں، لیکن خود ان شعراء کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں بتاتے۔
یہ بات ایک حد تک صحیح ہے لیکن ناسخؔ، ذوقؔ، رندؔ وغیرہ کے تعریفی اشعار سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ان لوگوں کی نظر میں میر کی شاعری ناقابل تقلید تھی۔ کیوں کہ میر کی تعریف کرنے کے باوجود انہوں نے میر کی تقلید نہ کی۔ یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کو میر کی شاعری کا کوئی عرفان نہ تھا۔ کیونکہ اگر میر کا تھوڑا بہت بھی عرفان ہوتا تو میر کا کچھ تو پرتو ان کے یہاں نظر آتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ غالب جنہوں نے میر سے واقعی استفادہ کیا، ان کو بھی میر کا رسمی خراج گزار سمجھ لیا گیا۔ لیکن غالب کے بارے میں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اپنے آخری زمانے میں انہوں نے میر کا طرز اختیار کرنے کی کوشش کی، جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں۔
غالب کا وہ شعر جس میں انہوں نے میر کے دیوان کو ’’کم از گلشنِ کشمیر نہیں‘‘ کہا تھا، ان کے زمانہ نو جوانی کا ہے اور وہ شعر جو گلشن کشمیر والے شعر سے زیادہ مشہور ہے، وسط عمر کا ہے کیونکہ یہ غزل ۱۸۴۷ کے دیوان میں موجود ہے۔ اس کی اشاعت کے وقت غالبؔ کی عمر پچاس سے کچھ کم تھی۔ میری مراد اس مقطع سے ہے،
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
ان حقایق کے ساتھ ساتھ ہم اگر اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ غالب نے میر سے دل کھول کر استفادہ کیا ہے اور جن غزلوں نے غالب کو غالب بنایا، ان میں سے اکثر ایسی ہیں جو غالب نے تیس برس کی عمر کو پہنچنے کے پہلے لکھی تھیں اور غالب کا میر سے استفادہ تقلیدی نہیں بلکہ تخلیقی ہے، تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ غالب کے تخلیقی سرچشمے میں جو دھارے آکر ملتے ہیں ان میں بیدل اور سبک ہندی کے بعض دوسرے ’’بدنام‘‘ شعراء کے علاوہ میر کا دریائے ذخار بھی ہے۔
اس نظریے کی خارجی شہادت شاعری اور فن شعر کے بارے میں ان خیالات میں مل سکتی ہے، جو میر اور غالب کی تحریروں میں منتشر ہیں، لیکن جن کو یک جا کرکے دیکھا جائے تو ان دونوں شاعروں کانظریۂ شعر مرتب ہو سکتا ہے۔ میرؔ نے نکات الشعراء میں مختلف شاعروں کے بارے میں جو لکھا ہے اس سے بھی ان کا نظریۂ شعر ایک حد تک مستنبط ہو سکتا ہے، لیکن وہاں ضرورت استنباط و استخراج کی ہوگی۔ کیونکہ شعر یا شاعری کے بارے میں براہ راست بیان نکات الشعرا میں مشکل سے ملےگا۔ اس کے برخلاف میر کے کلام میں شعر اور شاعری کے بارے میں بعض براہ راست باتیں مل جاتی ہیں۔ ان اشعار سے یہ نتیجہ نکالنا غیر ضروری ہے (اگرچہ یہ غلط نہ ہوگا) کہ میر کے اپنے شعروں میں وہ سب خوبیاں ضرور ہوں گی جن کا ذکر انہوں نے شعر کے صفات اور محاسن کے طور پر کیا ہے، لیکن یہ اشعار ہمیں یہ ضرور بتاتے ہیں کہ میر کے خیال میں شعر میں کیا صفات و محاسن ہونا چاہیے۔
یعنی میر کے کلام سے ان کا نظریہ شعر تو برآمد ہو سکتا ہے، لیکن یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ خود ان کا کلام اس نظریے پر پورا اترتا ہے۔ اسی طرح غالب کے خطوط میں شعر اور شاعری کے بارے میں جو منشتر اظہارِ رائے ہے، اس کو یک جا کرکے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ شعر کے محاسن کے بارے میں غالب کا نظریہ کیا تھا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ خود غالب کا کلام اس نظریے پر پورا اترے۔ بہرحال ہمیں اس وقت اس بات سے براہِ راست بحث نہیں کہ غالبؔ اور میر کے نظریاتِ شعر خود ان کے کلام پر کہاں تک صادق آتے ہیں۔ بحث اس وقت یہ ہے کہ ان کے نظریات کیا ہیں اور اگر ان نظریات میں قرار واقعی مماثلت ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ دونوں شاعروں کا نظریۂ شعر بڑی حدتک یکساں تھا، اس لیے دونوں کی ذہنی ساخت اور طرزِ فکر میں مماثلت تھی اور دونوں کو شاعری سے جو توقعات تھیں وہ بڑی حدتک یکساں تھیں۔
غالب نے بعض دوستوں اور ملاقاتیوں کے کلام کی رسمی اور مبالغہ آمیز تعریفیں کی ہیں۔ ان کو نظرانداز کرکے ان کے براہِ راست نظریاتی خیالات پر توجہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معنی آفرینی، شور انگیزی، مناسبت الفاظ اور رعایت فن کو بنیادی اہمیت دیتے تھے۔ میر نے بھی انہیں چیزوں کو اہمیت دی ہے۔
تفتہؔ کے نام خط میں غالب کا مشہور قول ہے، ’’بھائی، شاعری معنی آفرینی ہے، قافیہ پیمائی نہیں۔‘‘ سید محمد زکریا ذکی کے نام سند میں غالب لکھتے ہیں، ’’معنی سے طبیعت کو علاقہ اچھا ہے۔‘‘ حاتم علی مہرؔ کی تعریف کرتے ہوئے غالب معانی نازک اور اچھوتے مضامین کا ذکر کرتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اگر ہم نے پرانے لوگوں کی برائیاں ترک کیں تو ان کی اچھائیاں بھی ترک کردیں۔ چنانچہ معنی آفرینی کی اصطلاح اس قدر غریب ہو چکی ہے کہ اس کی وضاحت کے لیے مستند قول نہیں ملتا۔ پچاس برس پہلے بھی لوگ اس اصطلاح سے کتنے بےخبر تھے، اس کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیاز فتح پوری نے فراق گورکھپوری جیسے تہی دامن شاعر کو بھی معنی آفریں لکھ دیا۔
دراصل معنی آفرینی سے مراد وہ طرزِ بیان ہے، جس میں ایک ہی بیان میں کئی طرح کے معنی ظاہر یا پوشیدہ ہوں یا جس میں معمولی طرزِ بیان کو پیچ دار بناکر کہا جائے کہ اس معمولی بات میں بھی کوئی نیا گوشہ یا اس کا کوئی ایسا پہلو نظر آ جائے جو عام طور پر محسوس نہ ہوتا ہو یا پھر وہ طرز بیان جس میں کسی بات سے کوئی غیر متوقع نتیجہ نکالا جائے۔ شیلی نے جب یہ کہا تھا کہ شاعری مانوس چیزوں کو نامانوس بنادیتی ہے تو وہ معنی آفرینی کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کر رہا تھا اور جان کر درین سم نے جب شاعری کی صفت کو ’’اعجازیت‘‘ Miraculism کا نام دیا تھا تو وہ معنی آفرینی کے ایک اور پہلو کی نشان دہی کر رہا تھا۔
واضح رہے کہ معنی آفرینی اور نازک خیالی الگ الگ چیزیں ہیں یعنی نازک خیالی اور معنی آفرینی ہم معنی نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی شعر میں نازک خیالی اور معنی آفرینی دونوں ہوں یا محض نازک خیالی یا محض آفرینی ہو۔ غالب نے مومن کے بارے میں کہا تھا کہ ان کی طبیعت معنی آفرین تھی، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مومن کے یہاں معنی آفرینی سے زیادہ نازک خیالی ہے۔ خود غالب نے اپنے شعر
قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا
خط جام سے سراسر رشتۂ گوہر ہوا
کے بارے میں یہ کہہ کر اس شعر میں خیال ہے تو بہت دقیق، لیکن لطف کچھ نہیں، یعنی کوہ کندن کاہ برآوردن، معنی آفرینی اور نازک خیالی کا فرق اشاروں اشاروں میں بیان کر دیا تھا۔ یہ شعر نازک خیالی کی انتہائی مثال ہے لیکن معنی آفرینی سے خالی ہے۔ اگر اس میں معنی آفرینی کارفرما ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ کوہ کندن و کاہ برآوردن نہ ہوتا۔ جیسا کہ مومن کے شعروں میں اکثر ہوتا ہے۔ غالب نے قدربلگرامی کے مطلع پر اصطلاح دیتے ہوئے اس کی جو توجیہ بیان کی وہ بھی معنی آفرینی کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ قدر کا شعر تھا،
لاکے دنیا میں ہمیں زہر فنا دیتے ہو
ہائے اس بھول بھلیاں میں دغا دیتے ہو
غالب نے ردیف (دیتے ہو) کو جمع غائب (دیتے ہیں) کر دیا اور لکھا کہ اب خطاب معشوقان مجازی اور قضا وقدر میں مشترک رہا۔ یعنی معنی کا اضافہ ہو گیا۔ لہٰذا وہ بیان جس میں معنی کے زیادہ امکانات ہوں، معنی آفرینی کا حامل ٹھہرتا ہے۔
غالب کی طرح میر نے بھی نازک خیالی کا ذکر نہیں کیا ہے اور معنی آفرینی اور پیچیدگی کا ذکر کیا ہے۔ میر کے بعض شعر حسبِ ذیل ہیں،
نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت و معنی
گیا ہو میر دیوانہ رہا سودا سومستانہ
(دیوان اول)
زلف سا پیچ دار ہے ہر شعر
ہے سخن میر کا عجب ڈھنگ کا
(دیوانِ چہارم)
طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میر
کیا کیا کہا کریں ہیں زبان قلم سے ہم
(دیوان سوم)
ہر ورق ہر صفحے میں اک شعر شور انگیز ہے
عرصۂ محشر ہے عرصہ میرے بھی دیوان کا
(دیوان پنجم)
ان اشعار میں معنی، پیچ داری، شعر کے معنی کے مختلف الامکان ہونے یعنی شعر کے تہ دار ہونے کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب صفات معنی آفرینی کی ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ غالب اور میر میں معنی آفرینی کا نظریہ مشترک ہے۔ پہلے اور آخری شعر میں شورش اور شورانگیزی کا بھی ذکر ہے۔ اس اصطلاح کے معنی بھی ہم آج بھول گئے ہیں۔ لیکن غالب نے بھی اسے استعمال کیا ہے۔ علائی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’مغربی عرفا میں اور قدما میں ہے۔ ان کا کلام دقائق و حقائق تصوف سے لبریز۔ قدسی شاہ جہانی شعراء میں صائب و کلیم کا ہم عصر اور ہم چشم۔ ان کا کلام شور انگیز۔‘‘
غالب نے یہ اصطلاح جس طرح استعمال کی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شور انگیزی سے مراد جذبات خاص کر عشقیہ جذبات کی فراوانی ہے۔ شور انگیز کلام میں صوفیانہ دقائق و غوامض بیان نہیں ہوتے۔ لہٰذا اس میں وہ محویت یا سرمستی یا عارفانہ مضامین کی وہ باریکی نہیں ہوتی جو صوفیانہ شاعری کاخاصہ ہے۔ اس کے برعکس شعر شور انگیز میں جذبات کا تلاطم اور احساس بلکہ محسوسات کی شدت ہوتی ہے۔ لیکن اس میں جذباتیت اور سطحیت نہیں ہوتی بلکہ اس میں ایک اندرونی تناؤ ہوتا ہے۔ محمد جان قدسی کا کلام اس بات پر شاہد ہے کہ اس اندرونی تناؤ کو کنتھ برک Kenneth Burke کی زبان میں Intension کہہ سکتے ہیں۔ یہ تناؤ الفاظ کے دردبست پر قائم ہو۔
تفتہ کے ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے غالب نے لکھا تھا کہ ’’چار لفظ ہیں اور چاروں واقعے کے مناسب۔‘‘ اسی طرح ’’فسانۂ عجائب‘‘ کے سرنامے پر شاگرد مصحفی کے شعر کا حوالہ دے کر
یادگارِ زمانہ ہیں ہم لوگ
یاد رکھنا فسانہ ہیں ہم لوگ
غالب تحسین کے انداز میں لکھتے ہیں کہ ’’یاد رکھنا فسانہ کے واسطے کتنا مناسب ہے۔‘‘ اسی مناسبت کو غالب نے عبدالغفور سرور کے خط میں ’’رعایت فن‘‘کے نام سے یاد کیا ہے۔ الفاظ کو آپس میں مناسب ہونا چاہیے۔ فن کی رعایت سے مراد ہے وہ چیزیں، فن جن کا تقاضا کرتا ہے اور جنہیں رعایت کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس رعایت سے مراد وہ تمام فنی ہتھ کنڈے اور بناؤ ہیں، جن سے مناسبتِ لفظی و معنوی کا اظہار ہوتا ہے۔ میر ان نکات کو لفظ اسلوب سے ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’’اسلوب‘‘ ہی فن کی پہچان ہے۔
میر شاعر بھی زور کوئی تھا
دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب
(دیوان اول)
دیوان اول اور دیوان دوم کی دوہم طرح غزلوں کے مقطع میں مناسبت کے تصور کو میر نے عملی طور پر ظاہر کیا ہے۔ دونوں شعروں میں ’’آب‘‘، ’’پانی‘‘اور ’’روانی‘‘ کا تلازمہ اختیار کرکے ’’آب سخن‘‘ کی تعریف بہم پہنچائی ہے۔
دریا میں قطرہ قطرہ ہے آبِ گہر کہیں
ہے میر موج زن تیرے ہر یک سخن میں آب
(دیوان اول)
دیکھو تو کس روانی سے کہتے ہیں شعر میرؔ
دُر سے ہزار چند ہے ان کے سخن میں آب
(دیوان دوم)
یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اگر میر اور غالب کی شعریات میں اتنی مماثلت ہے تو ان کے اشعار میں مماثلت کیوں نہیں؟ اس کے کئی جواب ممکن ہیں۔ ایک تو وہی جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میر اور غالب کے بہت سے اشعار میں مماثلت ہے۔ یہ مماثلت غالب کے تخلیقی استفادے کا ثبوت ہے اور اس کا اظہار رویے اور ان اشیاء کے انتخاب میں ہوا ہے، جن کے ذریعے دونوں نے کائنات و ذات کے بارے میں اپنے تجربات کو بیان کیا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ شعریات میں مماثلت ہونے کے ساتھ ساتھ اگر اسلوب میں بھی مماثلت ہوتی تو پھر غالب کا کارنامہ ہی کیا ہوتا؟ تیسرا جواب یہ ہے کہ میرؔ نے شعر کی ایک اور خصوصیت کا ذکر کیا ہے، جسے ’’کیفیت‘‘ کہتے ہیں،
نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و بے کیفیت و معنی۔
غالب نے ’’کیفیت‘‘ کا ذکر کہیں نہیں کیا ہے۔ اس اصطلاح کے بھی معنی اب گم ہو گئے ہیں۔ لیکن درحقیقت کیفیت اس چیز کا نام ہے جس کو ذہن میں رکھ کر بیدل نے اپنا مشہور فقرہ کہا ہوگا کہ ’’شعر خوب معنی نہ دارد۔‘‘ یعنی وہ صورت حال جب شعر میں کوئی خاص معنی نہ ہوں یا اس کے معنی پوری طرح فوراً ظاہر نہ ہوں، لیکن اس کا جذباتی تاثر یا محاکاتی اثر فوری ہو۔ بعض اوقات ایسے شعر کے معنی الفاظ میں بیان بھی نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر اس کا جذباتی تاثریا محاکاتی اثر فوری ہو، یا بعض مخصوص سیاق و سباق کا محتاج ہو تو اس شعر میں کیفیت نہیں بلکہ سطحیت ہوگی۔ میرؔ نے اس نظریے کو اس طرح بھی بیان کیا ہے،
کسی نے سُن شعر میر یہ نہ کہا
کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب
(دیوان دوم)
’’کہیو پھر‘‘میں شعر کو صرف دوبارہ دہرانے کی درخواست نہیں ہے، بلکہ نکتہ یہ بھی ہے کہ ایسا شعر اور بھی کہو۔ غالب کے یہاں کیفیت کے شعر خال خال ہیں، لیکن میر کے یہاں ایسے شعر کثرت سے ہیں۔ فراق صاحب کے یہاں کم کم اور ناصر کاظمی کے یہاں اکثر شعر کیفیت کے حامل ہیں۔ اسی لیے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ فراق اور ناصر کاظمی طرز میر کے شاعر ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کیفیت کے علاوہ شعر میر کی تمام تر خصوصیات غالب کے یہاں غالب کی اپنی تخلیقی شان کے ساتھ وارد ہوئی ہیں۔ ان کی شعریات کے کئی پہلوؤں میں مماثلت ان کے ذہنی اشتراک پر دال ہے۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ غالب کے موضوعات میر کے مقابلے میں محدود ہیں۔ غالب کے یہاں معنی کی فراوانی میر سے زیادہ ہے، اس لیے ان کا کلام میر سے زیادہ رنگارنگ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن روزمرہ کی زندگی اور اس کے واقعات سے جتنا شغف میرؔ کو ہے اتنا غالب کو نہیں۔ غالب تو غیرمعمولی واقعات کو بھی بعض اوقات ایک اندازِ بے پروائی سے بیان کر جاتے ہیں۔ ان کے برخلاف میر تمام واقعات کو واقعات کی سطح پر برتتے ہیں اور ان میں جذباتی یا تجرباتی معنویت اور اہمیت داخل کرتے ہیں۔ واقعات کی کثرت اور ان کی جذباتی معنویت کی بنا پر میر کی دنیا غالب کی دنیا سے بہت مختلف نظر آتی ہے۔
انتظار حسین نے عمدہ بات کہی ہے کہ ان کو نظیر اکبرآبادی میں ایک افسانہ نگار اور میر میں ایک ناول نگار نظر آتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی حد تک تو ان کی بات میں کلام ہو سکتا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ میر کی دنیا اپنی وسعت، واقعات کی کثرت، غزل کے روایتی کرداروں کو واقعاتی سطح پر برتنے کی خصوصیت اور عام زندگی کے معاملات کے تذکرے کے باعث کسی بڑے ناول نگار کی دنیا معلوم ہوتی ہے۔
میر کا کلیات مجھے چارلس ڈکنس کی یاد دلاتا ہے۔ وہی افراتفری، وہی انوکھے اور معمولی اور روزمرہ اور حیرت انگیز واقعات کا امتزاج، وہی افراط وہی تفریط، وہی بے ساختہ، مگر حیرت انگیز مزاح، وہی بھیڑ بھاڑ۔ معلوم ہوتا ہے ساری زندگی اس کلیات میں موج زن ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا تجربہ نہیں، عارفانہ وجدان اور مجذوبانہ وَجد سے لے کر رندانہ برہنگی تک کوئی ایسا لطف نہیں، ذلت و ناکامی، نفرت، فریب شکستگی، فریب خوردگی، پھکڑپن، زہر خند، سینہ زنی سے لے کر قہقہہ، جنسی لذت، عشق کی خودسپردگی اور محویت تک کوئی ایسا جذبہ اور فعل نہیں، جس سے میر نے اپنے کو محفوظ رکھا ہو۔
ایسی صورت میں ان کا کلام غالب سے بظاہر مختلف معلوم ہوتا ہے، حیرت انگیز نہیں۔ بقول آل احمد سرور، غالب ہمارے سامنے وہ محفل سجاتے ہیں جس میں زمین سے آسمان تک ہر چیز آ جاتی ہے لیکن رہتی وہ محفل ہی ہے۔ غالب کا دیوان ایک پرتکلف اور طلسمی دیوان خانہ ہے۔ اس طلسم میں ہر چیز نظر آ جاتی ہے اور اکثر اس طرح کہ ایک ہی چیز کئی کئی چیزیں دکھائی دیتی ہے۔ اس کے برخلاف میر کا کلام وہ شہر ہے جس میں ہر وہ چیز نظر آتی ہے، جو اس دیوان خانے کے طلسم میں بند ہے حتی کہ وہ دیوان خانہ بھی جس شہر میں ہے، وہ میرؔ کا ہی کلام ہے۔ ایسی صورت میں ذہنی ساخت اور رویے کی مماثلت کے باوجود دونوں کے کلام کا تاثر مختلف ہونا لازمی ہے۔
ممکن ہے آپ کو خیال آئے کہ غالب اور میر کے درمیان شعریات کا کم و بیش مشترک ہونا کوئی خاص بات نہیں اور اس کی بنا پر یہ رائے قائم کرنا کہ دونوں کی ذہنی ساخت ایک طرح کی تھی، جلد بازی ہوگا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہند ایرانی شعریات اردو کے تمام کلاسیکی شعراء میں مشترک ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ مثلاً ناسخؔ یا آتشؔ کی بھی شعریات وہی نہ ہوں، جو غالب اور میر کی تھی۔
اس بات میں تو کوئی کلام نہیں کہ شاعری کے بارے میں بہت سی عمومی باتیں اردو کے تمام کلاسیکی شعراء میں مشترک ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ لیکن عام طور پر مشترک تفصیلات کے باوجود بنیادی جزئیات میں اختلاف ممکن بلکہ ضروری ہے۔ یہ اختلاف کئی وجہوں کی بناپر ہو سکتا ہے۔ ان میں سے ایک وجہ لاعلمی یا کم فہمی بھی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ رند کے اس شعر سے ظاہر ہوا ہوگا جو میں نے اوپر نقل کیا ہے لیکن یہ اختلاف ذہنی ساخت کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ آتش کے بار میں میں کہہ چکا ہوں کہ وہ میر کے مضامین بے تکلف استعمال کرتے ہیں۔ اس بناپر گمان گزر سکتا ہے کہ شاعری کے بارے میں ان کے خیالات میر سے مشابہ ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کے دو شعر جن میں سے ایک بہت مشہور ہے، حسب ذیل ہیں،
کھینچ دیتا ہے شبیہ شعر کا خاکہ خیال
فکرِ رنگیں کام اس پر کرتی ہے پرواز کا
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
(دیوان اوّل)
ظاہری چمک دمک کے باوجود پہلے شعر میں Concepts یعنی تصورات ژولیدہ اور غیرقطعی ہیں۔ ’’خیال‘‘ اور ’’فکرِرنگیں‘‘ کو اصطلاحوں کے طور پر برتا ہے لیکن ’’فکرِرنگیں‘‘ مہمل ہے اور یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ خیال جو شبیہ شعر کا خاکہ کھینچتا ہے، تخیل یعنی imagining ہے یا شعر میں بیان کردہ خیال یعنی Idea ہے۔ یہ بات بھی واضح نہیں ہوئی کہ شبیہ شعر کے اوپر پرواز یعنی ’’جلا‘‘ کرنے کا کام فکرِ رنگیں کس طرح کرتی یا کر سکتی ہے۔ فکرِرنگیں رنگ تو شاید بھردے لیکن شبیہ کو چمکانے میں اس کا کیا دخل؟
دوسرے شعر میں آتش نے بہت زور مارا تو شاعر کو زرگریا اس طرح کا کوئی Craftsman بنا دیا اور اگر بندش کونگ جڑنے کا عمل کہا جائے تو تمام الفاظ کو نگ فرض کرنا پڑےگا۔ اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ پھر وہ کون سی چیز ہے جسے سونا یا چاندی فرض کیا جائے، جس میں الفاظ کے نگ جڑے جاتے ہیں۔ ممکن ہے وہ شعر کا وزن و بحر ہو، لیکن اگر ایسا ہے تو شعر کو وزن و بحر سے، الفاظ سے الگ فرض کرنا پڑےگا، جو ظاہر ہے کہ مہمل ہے۔ ایک محدود قسم کے نظریۂ شعر کی حیثیت سے ان اشعار کو قبول کیا جا سکتا ہے لیکن اس نظریے کو میروغالب کے نظریے سے کوئی علاقہ نہیں۔
اوپر میں نے غالب اور میر کے شعر کی دنیاؤں کا فرق ظاہر کرنے کے لیے لکھا تھا کہ میر کی دنیا روز مرہ کے واقعات سے بھری ہوئی ہے اور ان واقعات کو وہ ایک جذباتی معنویت بخش دیتے ہیں۔ ان کے یہاں کرداروں کی کثرت ہے۔ غالب کی دنیا اگرچہ میر ہی کے اتنی بھرپور ہے، لیکن اس میں واقعات اور کرداروں کی یہ کثرت نہیں۔ اس لیے دونوں کا تاثر مختلف معلوم ہوتا ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے میر اور غالب کے ایک ایک ایک شعر کا مطالعہ دلچسپ اور کارآمد ہوگا۔ دونوں شعروں میں مرکزی کردار اور شاعر اور عاشق کی موت کا ذکر ہے۔
میرؔ:
جہاں میں میر سے کا ہے کو ہوتے ہیں پیدا
سنا یہ واقعہ جس نے اسے تاسف تھا
(دیوان سوم)
غالبؔ:
اسد اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغاوہ رند شاہد باز
میر کے یہاں ابہام اور کنایہ بھی بہت خوب ہیں۔ ابہام اس لیے کہ ’’کاہے کو ہوتے ہیں پیدا‘‘سے مراد یہ بھی نکلتی ہے کہ میرؔ جیسے لوگ شاذ ہی پیدا ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ آخر میں میر جیسے لوگ (یعنی اتنے بدنصیب اور تکلیف سے جینے مرنے والے لوگ) پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں۔ ’’میر سے‘‘ میں بھی ابہام ہے کہ میر جیسے غیرمعمولی لوگ یا میر جیسے بدنصیب لوگ یا میر جیسے عاشق وغیرہ۔ کنائے کاحسن یہ ہے کہ موت کا ذکر براہِ راست نہیں کیا بلکہ ’یہ واقعہ‘ کہہ کر اس کو ثابت کیا اور یہ ابہام بھی رکھ دیا کہ میر کی موت ایک قابل ذکر واقعہ ہے۔ روزمرہ کے ایک واقعہ میں میر اس طرح جذباتی معنویت اور شدت بھردیتے ہیں۔ اب کرداروں کی کثرت دیکھیے۔ ایک تو میر خود، ایک وہ شخص جو اس شعر کا متکلم ہے اور تیسرا بڑا گروہ ان لوگوں کا جنہوں نے یہ واقعہ سنا اور تاسف کیا۔ پھر متکلم ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک تو وہ شخص جو اس شعر میں بول رہا ہے، یعنی جس کی زبان سے پورا شعر ادا ہوا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پہلا مصرع کسی اور شخص نے بولا ہے۔ اس کو سن کر تصدیق کے طور پر دوسرا شخص جواب دیتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ شعر کیفیت کا شعر ہے لیکن یہ کیفیت بھی ان تہ در تہ باریکیوں سے پیدا ہوئی ہے۔
غالب کا شعر بھی ان کے بہترین اشعار میں سے ایک ہے۔ یہ شعر بھی بنیادی طور پر کیفیت کا شعر ہے۔ لیکن اس کی دنیا میں کردار صرف تین ہیں۔ ایک تو غالب خود اور دوسرے وہ شخص جو اس شعر کے متکلم ہیں۔ غالب کی شخصیت ’’رندشاہد باز‘‘ سے قائم ہوئی ہے اور بہت خوب قائم ہوئی ہے لیکن اس میں مزید امکانات ہیں۔ ’’تمام ہوا‘‘ میں گہری سانس کھینچنے اور المیہ کی کیفیت غیرمعمولی قوت کی حامل ہے۔ غالب کی پوری زندگی سامنے آ جاتی ہے۔
محسوس ہوتا ہے کہ رندی اور شاہد بازی میں طفلات و کھلنڈرے پن کے علاوہ کسی گہری اندرونی کمی کو چھپانے کی کوشش بھی تھی۔ المیاتی کیفیت اور کردار کی پیچیدگی نے شعر کو عام واقعہ کی سطح سے بہت بلند کر دیا ہے۔ لیکن اس کا لہجہ، اس کی دنیا، یہ سب ایک نسبتاً محدود مقام Locals سے متعلق ہیں۔ میر ی طرح غالب نے بھی دو متکلموں کا امکان رکھ دیا ہے کیونکہ ممکن ہے پورا شعر ایک ہی شخص نے بولا ہو یا پہلا مصرع ایک شخص نے اور دوسرا کسی اور شخص نے، لیکن دوسرے مصرعے کا لہجہ چونکہ روزمرہ سے دور ہے اس لیے مکالمے کا التباس اتنا مؤثر نہیں جتنا میر کے شعر میں ہے۔
غالب کے یہاں روزمرہ سے دوری کا ذکر مجھے میر کی اس خصوصیت کی طرف لاتا ہے، جسے میں ان کے عظیم ترین کارناموں میں شمار کرتا ہوں یعنی یہ کہ میر نے روزمرہ کی زبان کو شاعری کی زبان بنا دیا۔ یہ کام ان کے علاوہ کسی سے نہیں ہوا اور اس کی وجہیں متعین کرنا آسان نہیں۔ ’’روزمرہ‘‘ کی تعریف بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ روزمرہ شخص، طبقے اور علاقے کے ساتھ تھوڑا یا بہت بدلتا رہتا ہے۔ تاریخ بھی اس پر اثرانداز ہوتی ہے حالانکہ میر کی حد تک تاریخ کوئی اہم بات نہیں کیوں کہ ہم اس روز مرہ کا ذکر کر رہے ہیں، جو میر کے زمانے میں مروج تھا۔
کہا جاتا ہے کہ روز مرہ کا استعمال میر کے بہت سے ہم عصروں کے یہاں بھی ملتا ہے۔ پھر میر کی خوبی کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ میر کے ہم عصروں کے یہاں روز مرہ کو شاعری کی سطح پر نہیں، بلکہ اظہارِ خیال کی سطح پر برتا گیا ہے۔ جرأت، مصحفیؔ اور میر کے سو سو شعروں کا موازنہ اس بات کو واضح کر دےگا کہ جرأت اور مصحفیؔ کے یہاں وہ تہ داری و پیچیدگی نہیں ہے، جو میرؔ کے یہاں ہے۔ ان لوگوں کا روزمرہ محض روزمرہ ہے۔ اس میں زبان کا سطحی لطف ہے شاعری نہیں ہے۔ میر کا جو شعر میں نے اوپر نقل کیا ہے، وہ اس بات کی مثال کے طور پر کافی ہے کہ میر نے روزمرہ کو شاعری کس طرح بنا دیا ہے۔
لیکن روز مرہ کی تعریف کرنا ضروری ہے، ورنہ غالب کی زبان کو بھی روزمرہ کا درجہ کیوں نہ دیا جائے۔ آڈن نے لکھا ہے کہ عام زبان تو محض اس کام آ سکتی ہے کہ اس میں زندگی کے عام سوال جواب ہو سکیں۔ مثلاً یہ کہ ’’اس وقت کیا بجا ہے؟‘‘ یا ’’اسٹیشن کا راستہ کون سا ہے؟‘‘ آڈن کہتا ہے کہ شاعر کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس زبان کو جو روزمرہ کے کاروبار میں لگ کر اپنی معنویت کھو دیتی ہے، شاعری کے معنویت کوش کاروبار میں کس طرح لگائے۔ اردو کی حد تک یہ مسئلہ اتنا گمبھیر نہیں ہے۔ کیوں کہ اردو میں ادبی زبان اور روزمرہ کی زبان بڑی حد تک الگ الگ وجود رکھتی ہے۔ محض اضافتوں کا ہی استعمال دونوں زبانوں کو الگ کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن آڈن کے قول کی روشنی میں روزمرہ کی تعریف متعین کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
آڈن کے خیالات بڑی حد تک والیری سے ماخوذ ہیں۔ والیری کہتا ہے کہ وہ زبان جو عام ضروریات کے لیے استعمال ہوتی ہے وہ اپنا مقصد پورا کرکے ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ بیان جس میں کسی عام عملی ضرورت یا خیال کا اظہار کیا گیا ہو، اپنا ماضی الضمیر اپنے مخاطب تک پہنچانے کے بعد بے کار ہو جاتا ہے۔ زبان کے اس استعمال کو والیری عملی یا مجرد استعمال کہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ زبان کے عملی یا مجرد استعمالات میں بیان ناپائیدار ہوتا ہے۔ یعنی بیان کی ہیئت یا اس کا وہ طبیعاتی ٹھوس حصہ، جسے ہم گفتگو کا عمل کہہ سکتے ہیں، افہام کے بعد قائم نہیں رہتا۔ یہ روشنی میں گھل جاتا ہے۔ (یعنی وہ روشنی جو بیان کا منشا سمجھ لینے کے بعد حاصل ہوتی ہے) اس کا عمل پورا ہو چکا ہوتا ہے۔ اس نے اپنا کام انجام دے لیا ہوتا ہے۔ اس نے کہنے والے کا مافی الضمیر خالی کر دیا ہوتا ہے، اس کی زندگی پوری ہو چکی ہوتی ہے۔ یعنی وہ بیانات جو عملی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کہے یا لکھے جاتے ہیں، اپنا مقصد پورا کرنے کے بعد غیر ضروری اور بے معنی ہو جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جو بیانات عملی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کہے یا لکھے جاتے ہیں، ان کی صورت روزمرہ کی ہوتی ہوگی یا ان کی حیثیت روزمرہ کی ہوتی ہوگی۔ والیری کا کہنا ہے کہ یہ زبان شاعری کے کام نہیں آ سکتی۔ شاعری کی حیثیت زبان کے اندر زبان کی ہوتی ہے۔ کیوں کہ شاعر کو عام زبان سے قرض لے کر اپنی زبان بنانی پڑتی ہے۔ عام زبان، جسے والیری ’’پبلک کی زبان‘‘ کہتا ہے، روایتی اور غیرعقلی ہیئتوں اور قاعدوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ایسا مجموعہ جو بے ڈھنگے پن اور بے قاعدگی کا خلق کردہ، ملاوٹ سے بھرپور اور لفظیات کے صوتی اور معنویاتی ردوبدل کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
والیری اس بنا پر شاعری اور عام زبان میں نثر میں فرق کرتا ہے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ شاعری میں بھی افکار و تصورات بیان ہوتے ہیں۔ افکار کی تعریف وہ یوں کرتا ہے، ’’فکر وہ کار گزاری ہے، جو ان چیزوں کو ہمارے اندر زندہ کر دیتی ہے، جو وجود نہیں رکھتیں اور ہمیں اس بات پر قادر کرتی ہے کہ ہم جزو کو کل، صورت کو معنی سمجھ لیں، جو ہم میں یہ التباس پیدا کرتی ہے کہ ہم اپنے بے چارے پیارے جسم سے الگ ہوکر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ افعال کو عمل میں لا سکتے ہیں۔‘‘ والیری کہتا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ شاعر کے تفکر کی گہرائی سائنس داں یا فلسفی کے تفکر کی گہرائی سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ شاعرانہ عمل ہی میں تفکر اور تجریدی فکر موجود ہوتی ہے۔ شعرکے باہر اسے تلاش کرنا فضول ہے۔
تھوڑا سا غور بھی اس بات کو واضح کر دےگا کہ والیری جس قسم کے شاعر کا ذکر کر رہا ہے، وہ غالب کی طرح کا شاعر ہے یعنی ایسا شاعر جو ایسی زبان سے گریز کرتا ہے کہ جو عام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ والیری کا شاعر وہ شخص ہے، جس کی شاعری ہی تجریدی فکر ہے، اس لیے اس کی زبان لامحالہ ان سطحی بیانات کے برعکس عمل کرتی ہے، جو ٹھوس معلومات کی ترسیل میں کام آتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں والیری کا شاعر ایک خالص ادبی بلکہ علمی اور ادبی زبان استعمال کرتا ہے۔ ایسی زبان جو تجریدی فکر سے مملو ہوتی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ زبان جو تجریدی فکر سے مملو نہیں ہوتی ہے اور جسے والیری عام ضرورت کو پورا کرنے کے مقصد کے لیے کام آنے والی زبان کہتا ہے، روزمرہ کی زبان ہوگی۔ ایسی زبان تصورات سے عاری ہوگی۔ اس میں نازک یا باریک جذبات یا جذبات کے نازک یا باریک پہلوؤں کے اظہار کی بھی قوت نہ ہوگی۔ ایسی زبان میں آپ کھانے یا چائے کا آرڈر دے سکتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بھی کہہ سکیں کہ ’’مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘ لیکن اس زبان کو استعمال کرتے ہوئے آپ خدا کی واحدیت اور اس کی احدیت کا فرق واضح نہیں کر سکتے۔ اس زبان کو استعمال کرتے ہوئے آپ یہ بھی واضح نہیں کر سکتے کہ آپ کی محبت اور مجنوں کی محبت میں کیا مشابہت اور کیا مغائرت ہے۔ لہٰذا روزمرہ کی تعریف یہ ہوئی، وہ زبان جو تصورات Concepts اور نازک باریک جذبات Subtle emotions کو ادا کرنے کی قدرت سے کم و بیش عاری ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی زبان میں بڑی شاعری نہیں ہو سکتی بلکہ شاید شاعری ہی نہیں ہو سکتی۔
واضح رہے کہ والیری کی تہذیب میں ’’روزمرہ‘‘ نام کی کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ والیری صرف شاعری اور غیر شاعری کی زبان میں فرق کر سکتا ہے۔ اس نے روزمرہ کی تعریف نہیں بیان کی ہے۔ اس کے یہاں روزمرہ تھا ہی نہیں۔ یعنی وہ مہذب بامحاورہ زبان جو عوامی بول چال سے مختلف اور نفیس تر ہے، لیکن جس میں تصوراتی اور جذباتی تفریقات یعنی Categories بیان کرنے کی قوت نہیں ہے۔ لیکن والیری اور آڈن کے خیالات کی روشنی میں روزمرہ کی تعریف قائم ہو سکتی ہے۔ چونکہ روزمرہ یا کم و بیش روزمرہ میں ہمارے یہاں بہت ساری شاعری لکھی گئی ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں اس کی خاص اہمیت ہے، خاص کر اس لیے کہ اکثر لوگوں نے روزمرہ کی ناطاقتی کو ہی اس کی خوبی سمجھا اور اس کو ’’زبان کی شاعری‘‘ سے تعبیر کیا۔ حالانکہ شاعری تو ایک ہی ہوتی ہے۔ زبان کی شاعری اور تصورات کی شاعری کی تفریق مہمل ہے۔
وہ منظوم کلام جو ہمارے یہاں روزمرہ پر مبنی ہے، اس کا بڑا حصہ غیر شعرکی ضمن میں آتا ہے۔ اگر میر نے بھی اسی زبان پر اکتفاکی ہوتی جو ’’زبان کی شاعری‘‘ والوں کے یہاں ملتی ہے تو وہ بھی مصحفی، جرأت، قائم اور یقینؔ وغیرہ کی طرح درجہ دوم کے شاعر ہوتے۔ میرؔ روز مرہ کے یا زبان کے شاعر نہیں ہیں۔ ان کی بڑائی اس بات میں ہے کہ انہوں نے روزمرہ کو شاعری کی زبان میں بدل دیا۔ یعنی اس میں وہ قوتیں داخل کیں جو تصوراتی اور جذباتی تفریقات کا احاطہ کر سکیں۔ لیکن زبان کی جڑیں پھر بھی روزمرہ ہی میں پیوست رہیں۔ انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور اس طرح کہ آج تک اس کا بدل نہ ہو سکا۔
یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ اگرچہ روزمرہ میں شخص، ماحول اور عہد کے اعتبار سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے، لیکن اس کی ایک بنیادی ہیئت ہر زمانے میں ہوتی ہے چاہے وہ مثالی اور خیالی ہی ہو۔ ممکن ہے میر کا روز مرہ جرأت اور ا نشاء کے روزمرہ سے الگ رہا ہو لیکن یہ تینوں ایک دوسرے کے روزمرہ کو روزمرہ کی ہی حیثیت سے تسلیم کرتے تھے۔ آج بھی میرا روزمرہ آپ سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن بنیادی صفات کے اشتراک کی وجہ سے ہم دونوں کو ایک دوسرے کی زبان سمجھ لینے اور اسے روزمرہ قرار دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ لہٰذا میر بھی اس مثالی اور خیالی روزمرہ کے دائرے میں ہیں، جو ان کے زمانے میں رائج تھا۔ یہ اور بات ہے کہ میر نے روزمرہ کی بنیاد پر اپنی شاعری کی زبان تعمیر کی اور اس طرح شاعری کی زبان کے بارے میں بہت سے مفروضات کو بدلنے یا توڑنے کا عمل کیا۔
میرؔ کے زمانے میں اردو میں ادبی اور علمی نثر کا وجود نہ تھا، اس لیے ان کی زبان کا موازنہ صرف شاعروں کی زبان سے ہو سکتا ہے اور ان کے کارنامے کی پوری عظمت کا احساس آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ ادبی نثر سے میری مراد وہ نثر ہے جس میں تصوراتی تفریقات قائم کرنے کی صلاحیت ہو لیکن جس میں جذباتی تفریقات کا حصہ زیادہ ہو، تصوراتی تفریقات کا کم۔ انشاپردازانہ نثر اور بیشتر بیانیہ نثر اور تھوڑی بہت تنقید کی بھی نثر اس ضمن میں آتی ہے۔ اس نثرمیں روزمرہ کو بہت کم دخل ہوتا ہے۔ ادبی نثر معلوماتی بھی ہو سکتی ہے۔ علمی نثر میں تصوراتی تفریقات کا عمل زیادہ ہوتا ہے، جذباتی تفریقات کا کم اور روزمرہ اس میں تقریباً نہیں کے برابر دخیل ہوتا ہے۔
میر کے سامنے زبان کے وہی نمونے تھے جو شاعری میں دست یاب تھے۔ ممکن ہے ’’کربل کتھا‘‘ انہوں نے دیکھی ہو، لیکن اس میں دکنی اس قدر ان مل بے جوڑ تھی کہ وہ نمونے کا کام نہ دے سکی تھی۔ غالب کا زمانہ آتے آتے اردو میں ادبی نثر وجود میں آ چکی تھی۔ یہ زیادہ تر داستانوں کی شکل میں تھی۔ اس میں شاعری کی زبان کا التباس تھا لیکن تہ داری نہ ہونے کی وجہ سے وہ شاعری میں بجنسہٖ کام نہ آ سکتی تھی۔ تھوڑی بہت علمی نثر بھی لکھی جارہی تھی۔ اس میں تفریقات کو بیان کرنے کے لیے غیرفطری اردو کا استعمال نمایاں تھا۔
غالب کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایسی زبان بنانا چاہتے تھے جو شاعری کی زبان ہو یعنی جس میں علمی، ادبی دونوں طرح کی زبانوں کی ساری قوتیں ہوں اور کمزوریاں کوئی نہ ہوں یا کم سے کم ہوں۔ غالب اپنی کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے اور ان کی زبان آئندہ کے تمام شعراء کے لیے ایسا آئیڈیل بن گئی جس کو حاصل کرنے کی سعی ہی ان شعراء کی زندگی کا حاصل ٹھہری۔ حسرت موہانی اور آرزو لکھنوی اور داغؔ اور آزاد انصاری اور عظمت اللہ خاں جیسے چھوٹے بڑے لوگوں نے ہزار زور مارا۔ یگانہؔ نے ہزار مونہہ ٹیڑھا کرکے گالیاں دیں لیکن غالب جو زبان خلق کر گئے وہی اردو شاعری کی زبان رہی اور آج تک ہے۔
سودا نے اپنے رسالے ’’سبیل ہدایت‘‘ پر جو دیباچہ لکھا تھا، وہ اس عہد کی ادبی نثر کا غالباً واحد نمونہ ہے جس سے ہم واقف ہیں۔ سودا کی عبارت نثر کی شکل میں خاصی غیرفطری معلوم ہوتی ہے لیکن اس کا کوئی فقرہ ایسا نہیں جو سودا کی شاعری میں نہ کھپ سکے۔ انشاء نے ’’دریائے لطافت‘‘ میں میر غضر غینی کی جو گفتگو درج کی ہے وہ بہت فطری معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے بہت کم فقرے ایسے ہیں جومیر کے کلام میں بجنسہٖ کھپ سکتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت کی مروج شعر ی زبان سے انحراف اور روزمرہ کو شاعری بنانے کا عمل میر نے سرانجام دیا۔ وہ غالب کے کارنامے سے کم وقیع نہ تھا۔ غالب کے زمانے میں کم سے کم اتنا تو تھا کہ زبان کے بہت سے نمونے موجود تھے۔ لہٰذا غالب کو ردوقبول اور غور و خوض کے مواقع تو مہیا تھے۔ میر کے سامنے تو ایک ہی نمونہ تھا، یعنی اس وقت کی شعری زبان، جس کی مثالیں سودا اور تاباں وغیرہ کے یہاں ملتی ہیں۔ سودا کی زبان بیشتر ادبی تھی اور تاباں وغیرہ کی زبان پر روزمرہ کا اثر زیادہ تھا۔ لہٰذا وہ زبان اپنی مروج شکل میں میر کے کام کی نہ تھی۔
سودا کی شاعرانہ حیثیت میر سے پہلے قائم ہو چکی تھی۔ کیوں کہ وہ میر سے کوئی دس سال بڑے تھے۔ درد البتہ تقریباً میر کے ہم عمر تھے لیکن انہوں نے شاعری غالباً دیر میں شروع کی اور جو رنگ دردؔ نے اختیار کیا وہ علی الآخر غالب کے کام آیا۔ میرؔ کو سودا کا رنگ منظور نہ تھا کیونکہ ان کی افتاد طبع اور ذہنی ساخت سودا سے بہت مختلف تھی۔ اس لیے میر کو اپنا راستہ خود بنانا پڑا۔ ان کے سامنے کوئی نمونے نہ تھے۔ اس وجہ سے میر کا لسانی کارنامہ غالب کے کارنامے سے کم تر نہیں، بلکہ کچھ برتر ہی معلوم ہوتا ہے۔
میرؔ کے بارے میں یہ غلط فہمی کہ وہ خالص زبان یا روزمرہ کے شاعر ہیں، کئی وجہوں سے عام ہوئی۔ اول تو یہ کہ میر اور ان کے عام معاصروں میں ایک طرح کی سطحی اور لازمی مماثلت تو ہے ہی کیونکہ بہرحال ان سب شعرا کی بنیادی زبان مشترک تھی۔ دوسری بات یہ کہ میر کے بارے میں اس طرح کے واقعات مشہور ہوئے کہ انہوں نے کہا میں وہ زبان لکھتا ہوں، جس کی سند جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ محاورے اور تلفظ وغیرہ کی حد تک تو اس بیان پر اعتماد کرنا چاہیے لیکن شعری زبان کے جوہر پر اس کا اطلاق غیر تنقیدی کارروائی ہے اور میر کی روح سے بے خبری کا پتہ دیتا ہے۔ پھر یہ کوئی ضروری نہیں کہ شاعری کو شعوری طور پر معلوم ہی ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے یا اگر معلوم بھی ہو تو وہ اس کا اظہار کر سکے یا کرنا چاہے۔ علاوہ بریں اپنی شاعری کے بارے میں شاعر کے بیانات کو اسی وقت معتبر جاننا چاہیے جب ان کی پشت پناہی اس کے کلام سے ہو سکتی ہو۔
لہٰذا میر عام معنی میں روزمرہ کے شاعر نہیں ہیں۔ انہوں نے روزمرہ کی زبان پر مبنی شاعری لکھی ہے۔ یہ عظیم کارنامہ ان سے یوں انجام پایا کہ انہوں نے کئی طرح کے لسانی اور شاعرانہ وسائل استعمال کیے اور اس ترکیب متناسب سے کہ ان کا مجموعہ بہترین صورت میں اپنی طرح کا بہترین شاعرانہ اظہار بن گیا۔ اس ترکیب و تناسب کا پتہ مشکل بھی ہے اور غیرضروری بھی۔ غیرضروری اس لیے کہ وہ قواعدی Normative نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہو سکتا تو شاعری کا کھیل ہم آپ سب میرؔ ہی کی طرح کھیل لیتے۔ لیکن ان لسانی اور شاعرانہ وسائل کی تفصیل حسب ذیل ہے،
(۱) میر نے استعارہ اور کنایہ بکثرت استعمال کیا۔ آئی-اے رچرڈس نے بہت خوب لکھا ہے کہ جذبات کے نازک اور باریک پہلوؤں کا جب اظہار ہوگا تو بغیر استعارے کے نہ ہوگا۔ کلی اینتھ بروکس اس پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ شاعروں کو مشابہتوں کا سہارا لازم ہے، لیکن سب استعارے ایک ہی سطح پر نہیں ہوتے، نہ ہی ہر استعارہ ایک دوسرے کے ساتھ صفائی سے چپک سکتا ہے۔ استعاروں کی سطحیں آگے پیچھے، اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اور تناقضات بلکہ تضادات کو راہ دیتی ہیں۔ استعاروں کے اس عمل کو کلی اینتھ بروکس مستحن قرار دیتا ہے اور اسے قول محال اور طنز کا نام دیتا ہے۔
اپنی بعض تحریروں میں بروکس اس خیال کو بہت آگے لے گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے گرے کی نظم (جس کا ترجمہ ہمارے یہاں ’’شام غریباں‘‘ کے نام سے نظم طباطبائی نے کیا) میں بھی طنز کی کارفرمائی دیکھ لی ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بنیادی طور پر کلی اینتھ بروکس کا خیال بالکل درست ہے۔ میر کے استعاروں میں طنز اور قول محال کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ مغربی تنقید کنایہ کی اصطلاح سے بے خبر ہے لیکن کنایہ بھی استعارے کی ایک شق ہے کیوں کہ کنایہ کی تعریف یہ ہے کہ کسی معنی کو براہ راست ادا نہ کیا جائے، لیکن کوئی ایسا فقرہ یا لفظ کلام میں ہو جس سے اس معنی پر دلالت ہو سکے۔
والٹر اونگ کا خیال ہے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں انگریزی شاعری کو ریمس Ramus کے اس نظریے سے بہت نقصان پہنچا کہ استعارہ محض تزئینی چیز ہے، شاعری کا جوہر نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ استعارے کے بارے میں بعض باریک بینیاں جو جدید مغربی مفکروں کو ہاتھ آئی ہیں، ہمارے قدیم نقادوں کی دسترس میں نہیں ہیں، لیکن ہمارے یہاں یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے، اس لیے استعارے کو صنعتوں کی فہرست میں نہیں رکھا گیا بلکہ اس کا مطالعہ علم بیان کے ضمن میں کیا گیا کہ استعارہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ ہم ایک ہی معنی کو کئی طریقے سے بیان کر سکتے ہیں۔
میرؔ کا زمانہ آتے آتے استعارے کی حیثیت شاعری میں اس طرح ضم ہو گئی تھی کہ اس کا ذکر الگ سے بہت کم ہوتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ استعارہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ ارسطو نے یوں ہی نہیں کہا تھا کہ استعارے پر قدرت ہونا سب صلاحیتوں سے بڑھ کر ہے۔ ’’یہ نابغہ کی علامت ہے کیوں کہ استعاروں کو خوبی سے استعمال کرنے کی لیاقت مشابہتوں کو محسوس کر لینے کی قوت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘
(۲) استعارہ فی نفسہٖ معنوی امکانات سے پر ہوتا ہے، لیکن وہ استعارے جو کثرتِ استعمال کی بنا پر محاورہ یا علم زبان کا حصہ ہو جاتے ہیں، ان کے معنوی امکانات ہمارے لیے بے کار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اکثر ان کو صرف ایک ہی دو معنوی امکانات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور باقی امکانات معطل یا غیر کارگر رہتے ہیں۔ زبان چوں کہ ایسے استعاروں سے بھری پڑی ہے، اس لیے شاعر نئے استعارے تلاش کرتا ہے اور نئے پرانے دونوں طرح کے استعاروں کو مزید زور بھی دیتا ہے۔ میر نے یہ عمل مناسبت کے ذریعہ انجام دیا۔ مناسبت الفاظ، یعنی الفاظ میں باہم مناسبت ہونا یا الفاظ کو معنی (یعنی خیال) سے مناسبت ہونا، رعایتِ لفظی سے پیدا ہوتی ہے یا رعایت معنوی سے۔ رعایت معنوی اکثر براہِ راست استعارہ ہوتی ہے۔ رعایتِ لفظی استعارے کا التباس پیدا کرتی ہے (ملحوظ رہے کہ استعارے کا بنیادی عمل مشابہتوں کی دریافت ہے۔)
(۳) رعایت چوں کہ تلازمۂ خیال پیدا کرتی ہے، اس لیے جب وہ خالص استعارہ یا تشبیہ یا محاورے یا ضرب المثل کے ساتھ آتی ہے تو دوسرا استعارہ قائم ہوتا ہے کیوں کہ تشبیہ بھی استعارے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ محاورہ تو اصلاً استعارہ ہوتا ہی ہے اور ضرب المثل استعارے کی قائم مقام ہوتی ہے۔ رعایت کے ذریعہ محاورہ اور ضرب المثل میں نئے امکانات بھی پیدا ہوتے ہیں۔
(۴) میرؔ نے رعایت کو اکثر اس طرح بھی برتا ہے کہ اس کی وجہ سے شعر میں قولِ محال یا طنز یعنی Irony کی جہت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
(۵) مناسبت پیدا کرنے کی خاطر میر نے رعایت کو کبھی کبھی یک سطحی انداز میں بھی برتا ہے کہ شعر میں کوئی ندرت تو پیدا ہو جائے۔ میر کے یہاں مناسبت کا التزام اس کثرت سے ہے کہ وہ غالب اور میر انیس کے ساتھ اردو میں رعایتوں کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ میر کی رعایتیں مختلف صنائع لفظی و معنوی کا احاطہ کرتی ہیں۔ مناسبت کی کثرت نے میر کی زبان کو بے انتہا چونچال، پر لطف، کثیر الاظہار، تازہ کار اور تہ دار بنادیا ہے۔ میر کے کسی معاصر کو یہ امتیاز نصیب نہیں۔
اوپر کی گفتگو میں جن نظریاتی مباحث اور اصولوں کی طرف اشارہ ہے، ان کا عملی ادراک میر اور ان کے معاصرین کو ضرور رہا ہوگا۔ ہمارے زمانے میں مباحث اور اصول بڑی حد تک بھلا دیے گئے۔ اس فروگذاشت سے نقصان میر کانہیں ہوا بلکہ ہمارا ہوا کیوں کہ ہم میر کی تحسین و تعین قدر کے بعض اہم ترین پہلوؤں سے بے بہرہ رہ گئے۔ میں نے شرح میں جابجا ان مناسبتوں اور رعایتوں کی تشریح کی ہے جن سے میر کا کلام جگمگا رہا ہے۔ یہاں محض نمونے کے طور پر ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ اشعار کی تشریح نہ کروں گا، صرف استعارے اور مناسبت لفظی کے Interaction کے نتیجے میں ان اصولوں کی کارفرمائی دکھاؤں گا، جو میں نے اوپر بیان کیے ہیں۔ ملحوظ رہے کہ یہ غزل بڑی حد تک اس اسلوب کا نمونہ ہے، جسے ہم لاعلمی کی بناپر روزمرہ کا اسلوب کہتے ہیں۔ یہ زبان اس حدتک تو روزمرہ ہے کہ اس میں تصورات نہیں ہیں لیکن اگر یہ محض روزمرہ ہوتی تو اس میں شاعری بہت کم ہوتی، اظہار خیال زیادہ ہوتا۔ یہ زبان شاعری کی زبان اس لیے بن گئی ہے کہ میر نے ان اصولوں پر عمل کیا ہے، جو میں نے اوپر بیان کیے ہیں، دیوانِ سوم کی غزل ہے۔ میں چند اشعار پیش کرتا ہوں۔
دست و دامن جیب و آغوش اپنے اس لائق نہ تھے
پھول میں اس باغ خوبی سے جولوں تو لوں کہاں
دوسرے مصرعے میں معمولی سا استعارہ ہے۔ دنیا کو ’’باغِ خوبی‘‘ کہا ہے اور معشوقوں یا حسینوں کو ’’پھول‘‘ لیکن ’’خوبی‘‘ کے معنی ’’معشوقی‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ’’باغ خوبی‘‘دنیا کے بجائے کسی محفل یا جگہ کا استعارہ بھی بن جاتا ہے پھر چونکہ معشوق کے جسم کو بھی ’’باغ‘‘ کہتے ہیں اور اس کے جسم کے مختلف حصوں کو ’’گل حسن‘‘ یا ’’پھول‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے باغ خوبی محض معشوق کا استعارہ بھی بن جاتا ہے۔ اب پھول کے معنی معشوق نہیں بلکہ معشوق کے جسم کا کوئی حصہ یا اس کے جسم کے کسی حصہ کا بوسہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح باغ خوبی اور پھول ایک معمولی استعارہ نہیں بلکہ ایک پیچیدہ استعارہ بن جاتے ہیں جو ایک شخص یا ایک محل یا ایک عالم کے مفہوم کو محیط ہیں۔
پہلے مصرعے میں پھول کی مناسبت سے ’’دست و دامن‘‘ میں مناسبت ظاہر ہے کہ دامن کو ہاتھ سے پکڑتے ہیں۔ اسی طرح ’’جیب و آغوش‘‘ میں بھی مناسبت ظاہر ہے کیونکہ گریبان سینے پر ہوتا ہے اور آغوش میں لینے کے معنی ہیں سینے سے لگاکر بھینچنا، پھر دست اور آغوش میں بھی مناسبت ہے کیونکہ آغوش میں لیتے وقت ہاتھوں کو کام میں لاتے ہیں لہٰذا یہ جگہیں جو پھول رکھنے کے لیے مناسب ہیں، یوں ہی نہیں جمع کر دی گئی ہیں، ان میں آپس میں بھی مناسبت ہے۔ اب استعارہ دیکھیے۔ دست و دامن، جیب و آغوش متکلم کی صلاحیت کا استعارہ ہے۔ یہ صلاحیت روحانی بھی ہو سکتی ہے، اخلاقی بھی اور جسمانی بھی۔ دست اور آغوش کا تعلق براہِ راست جسم سے ہے۔ اس لیے شعر میں جنسی تلازمہ قائم ہوتا ہے اور دوسرے مصرعے کا باغِ خوبی اس دنیا کا استعارہ نظر آتا ہے، جس میں معشوق بھرے پڑے ہیں اور ’’پھول‘‘ معشوق کا استعارہ نظر آتا ہے یا باغ خوبی معشوق کا جسم اور پھول اس کے جسم کا حصہ یا جسم کے حصہ سے لمس یا بغل گیری کا استعارہ دکھائی دیتا ہے لہٰذا دونوں مصرعوں میں جنسی مناسبت مستحکم ہو جاتی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ’’باغ خوبی‘‘ سے مراد روحانی تجربات یا معرفت ہو اور پھول سے مراد معرفت کا پھول ہو۔ دامن اور جیب کے الفاظ ان معنی سے مغائر نہیں ہیں کیونکہ بنیادی لفظ ’’پھول‘‘ہے جو بظاہر ’’باغ خوبی‘‘سے بھی کم پرزور ہے، لیکن یہ بنیادی لفظ اس لیے ہے کہ پہلا مصرع تمام و کمال اس کی مناسبت سے کہا گیا ہے۔ اس مناسبت کا ایک فائدہ اور ہوا کہ پہلے مصرعے میں ٹھوس اور مرئی چیزوں کا ذکر ہے یعنی ’’دست و دامن، جیب و آغوش‘‘ اس وجہ سے جنسی تلازمہ تو مستحکم ہوا ہی ہے۔ شعر میں تجرید کی جگہ تجسیم آ گئی ہے۔ اگر مناسبت کا خیال نہ ہوتا تو دل، جان، روح وغیرہ قسم کے الفاظ رکھ سکتے تھے۔ پھر شعر تجریدی ہو جاتا اور ہاتھ، دامن، آغوش میں بھر لینے کے انسانی اور فوری عمل کی گنجائش نہ رہتی۔ اس وقت انسانی اور فوری تاثر کی بنا پر شوق کی Urgency اور Eagerness بہت خوبی سے آ گئی ہے۔
اگر آنکھ وغیرہ کا لفظ رکھتے تو لفظ کے جنسی تلازمے سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ اب لفظ ’’کہاں پر‘‘ غور کیجیے۔ یہ دو معنی رکھتا ہے ’’کہاں‘‘ بمعنی ’’کس جگہ‘‘ یعنی ہاتھ، جیب، دامن، آغوش جو جگہیں مناسب تھیں وہ تو اس لائق نہ نکلیں۔ اب میں ان پھولوں کو کس جگہ لوں۔ ’’کہاں‘‘ کے دوسرے معنی استفہام انکاری کے ہیں کہ میں پھول کو نہیں لے سکتا۔ اب پھول کے ابہام کا ایک اور پہلو دیکھیے۔ کئی جگہوں کا ذکر کرنے سے یہ ابہام پیدا ہوتا ہے کہ پھول صیغۂ واحد میں نہیں بلکہ صیغۂ جمع میں ہے یعنی متکلم بہت سے پھولوں کا خواہاں ہے اور ایک کو بھی حاصل کرنے کا اہل نہیں ہے۔
سیر کی رنگیں بیاض باغ کی ہم نے بہت
سروکا مصرع کہاں وہ قامتِ موزوں کہاں
سرو کو قامتِ یار سے تشبیہ دیتے ہیں کیونکہ قامتِ یار کو موزوں بھی کہتے ہیں اور مصرع بھی ’’موزوں‘‘ کہلاتا ہے، اس لیے سروکے لیے مصرع کا استعارہ رکھا ہے، جو بہت نادر نہیں لیکن دلچسپ ہے۔ اب یہاں سے مناسبت کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ سرو چونکہ مصرع ہے اور سروباغ میں ہوتا ہے، اس لیے باغ کو ’’بیاض‘‘ کہا اور چونکہ مصرعے کی ایک صفت رنگین بھی ہوتی ہے اور باغ بھی رنگوں سے بھرا ہوتا ہے، اس لیے باغ کو رنگیں ’’بیاض‘‘ کہا۔ کیونکہ یہ مناسبت دونوں طرف جاتی ہے، لیکن ’’بیاض‘‘ کے معنی ’’سفیدی‘‘ بھی ہوتے ہیں، اس طرح رنگین بیاض میں قول محال پیدا ہو گیا (یعنی رنگین سفیدی) اور آگے دیکھیے۔ باغ کی مناسبت سے ’’سیر‘‘ ہے جو سامنے کی مناسبت ہے۔ لیکن سرو کو پابہ زنجیر کہتے ہیں، اس لیے پابہ زنجیر کو دیکھنے کے لیے سیر کرنے جانے میں ایک لطیف طنزیہ تناؤ بھی ہے۔
’’سیر‘‘ اور ’’سرو‘‘ ایک ہی خاندان کے لفظ معلوم ہوتے ہیں۔ حالانکہ ایسا ہے نہیں، لیکن اس شبہے کی بنا پر سرو کے سیر کرنے میں ایک نیا لطف محسوس ہوتا ہے۔ مناسبت کا لحاظ نہ ہوتا تو سیر کی جگہ کوئی اور لفظ مثلاً ’’گشت‘‘ رکھ دیتے تو کوئی ہرج نہ محسوس ہوتا۔ پھر معشوق کو سرورواں بھی کہتے ہیں۔ اس طرح ’’سیر‘‘اور معشوق کے قامتِ موزوں میں بھی ایک مناسبت پیدا ہو گئی۔ ’’سیر‘‘ اور ’’کہاں‘‘ میں مناسبت ظاہر ہے۔
باؤکے گھوڑے پہ تھے اس باغ کے ساکن سوار
اب کہاں فرہاد و شیریں خسرو گلگلوں کہاں
باؤ کے گھوڑے پہ سوار ہونا کے معنی ہیں ’’بہت مغرور ہونا۔‘‘ میر نے محاورے کو دوبارہ استعارہ بنا دیا ہے کیونکہ اس شعر میں اس محاورے کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس باغ کے رہنے والے بہت جلدی میں تھے۔ ’’ساکن‘‘ کے معنی ہیں رہنے والا لیکن ٹھہرے ہوئے کو بھی ’’ساکن‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح ’’ساکن‘‘ اور ’’سوار‘‘اور خاص کر اس سوار میں جو ہوا کے گھوڑے پر بھی سوار ہو، قولِ محال کا لطف پیدا کر رہے ہیں (ساکن سوار) ’’ساکن‘‘ بمعنی ’’رہنے والا‘‘ میں ایک طنزیہ تناؤ بھی ہے۔ کیوں کہ اگر وہ لوگ ’’رہنے والے‘‘ (بمعنی ٹھہرنے والے، قائم رہنے والے) تھے، تو پھر اتنی جلدی غائب کیسے ہو گئے؟ طنزیہ تناؤ کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ وہ لوگ تھے تو رہنے والے، لیکن عجب رہنے والے تھے کہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔
فرہاد و شیریں میں مناسبت ظاہر ہے لیکن گھوڑے، شیریں اور گلگوں میں بھی مناسبت ہے۔ کیوں کہ شیریں کے گھوڑے کانام ’’گلگوں‘‘ تھا۔ باغ اور گلگوں کی مناسبت ظاہر ہے۔ خسرو اور گلگوں میں بھی مناسبت ہے کیوں کہ بادشاہ کے ہاتھ میں اکثر پھول دکھایا جاتا ہے، جو تری و شادابی اور لطافت کی علامت ہے۔ بادشاہ کے چہرے پر عزت اور وقار کی سرخی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا ’’گلگوں‘‘ یوں بھی مناسب ہے۔ لیکن فرہاد و شیریں کو ایک طرف رکھنے میں بھی ایک طنزیہ جہت ہے۔ ’’اب کہاں فرہاد و شیریں؟‘‘ یعنی فرہاد و شیریں جہاں بھی ہیں، ایک ساتھ ہیں۔ ’’خسرو گلگوں کہاں؟‘‘یعنی خسرو ان سے الگ ہے۔ ’’فرہاد و شیریں‘‘ کو ایک نحوی اکائی اور ’’خسرو گلگوں‘‘ کو دوسری نحوی اکائی کے طور پر باندھنے کی وجہ سے معنی کی یہ نئی شکل پیدا ہو گئی۔
ان مختصر مثالوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ میر کی کثیر المعنویت اور تہ داری اور زبان کا نیاپن استعارے اور رعایت کے بغیر ممکن نہ ہوتا اور خالی خالی روزمرہ میں ان صفات کا گزر نہیں۔ میر کے اسلوب کو سادہ اور سریع الفہم کہنا اور ان کے ابہام، ان کی پیچیدگی، کثیر المعنویت اور غیرمعمولی زور بیان کو نظرانداز کرنا نہ صرف میرؔ بلکہ تمام اردو شاعری کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ جو شعر میں نے اوپر درج کیے ان میں کوئی چیز ایسی نہیں، جس کو مضمون کے لحاظ سے غیرمعمولی کہا جائے۔ میرؔ کی ساری آفاقیت اسی میں ہے کہ وہ عام باتوں کو بھی انکشاف کا درجہ بخش دیتے ہیں اور یہ ان کے اسلوب کا کرشمہ ہے۔ میرؔ کی کائناتی المناکی اور زندگی کے دردوغم میں غوطہ لگانے اور انسانی عظمت اور شش جہت کے اسرار کا سراغ لگانے کی تعریف میں صفحے کے صفحے سیاہ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بات گہری ہو یا ہلکی، اسے شاعری بننے کے لیے کچھ شرطیں درکار ہوتی ہیں۔ فلسفیانہ مضامین میں تھوڑا بہت زور تو میاں فانی بھی پیدا کر لیتے ہیں۔ بڑا شاعر وہ ہے کہ جو معمولی معمولی حقیقتوں کو بھی اس طرح پیش کرے کہ ایک حقیقت کے چار چار پہلو بیک وقت نظر آئیں اور شعر کے الفاظ آپس میں اس طرح گتھے ہوئے ہوں کہ جیسے ان میں برقی مقناطیسی دائرہ Electro Magnetic Field قائم ہو گیا ہو۔
استعارہ اور مناسبت کے اصولوں کی اس مختصر وضاحت کے بعد میں میر کی زبان کی بعض دوسری خصوصیات کی طرف مراجعت کرتا ہوں۔
(۶) میرؔ نے فارسی کے نادر الفاظ اور فقرے اور نسبتاً کم مانوس الفاظ اور فقرے بکثرت استعمال کیے ہیں۔ انہوں نے عربی کے غریب الاستعمال الفاظ اور تراکیب اور عربی کے ایسے الفاظ جو غزل میں شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں، وہ بھی خوب استعمال کیے ہیں۔ عربی الفاظ و تراکیب کے استعمال کا یہ فن غالب بھی ٹھیک سے نہ برت سکے۔ میر کا عالم یہ ہے کہ ان کی کم غزلیں ایسی ہوں گی، جن میں کم سے کم ایک نادر فقرہ یا لفظ یا اصطلاح اور چھ سات نسبتاً کم مانوس الفاظ یا فقرے نہ استعمال ہوئے ہوں۔ عربی کے فقرے اور تراکیب اقبال کے بعد میر کے یہاں سب شاعروں سے زیادہ نکلیں گی۔
ذوقؔ اور مومنؔ کو بھی عربی سے شغف تھا۔ خاص کر ذوقؔ نے قرآن و حدیث سے خاصا استفادہ کیا ہے۔ ان دونوں کی عربیت (شاعری میں استعمال کی حد تک) غالب سے زیادہ لیکن میر سے کم تھی۔ میر کے کلام میں روانی اس قدر ہے کہ کوئی لفظ یا فقرہ بے جگہ نہیں معلوم ہوتا۔ یہ خاصیت ذوقؔ میں بھی ہے، لیکن میر کے یہاں عربی اس طرح کھپ گئی ہے کہ اکثر لوگوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ میں چند مثالیں اِدھر اُدھر سے نقل کرتا ہوں،
ایسا موتیٰ ہے زندۂ جاوید
رفتۂ یار تھا تب آئی ہے
(دیوانِ دوم)
’’موتیٰ‘‘ بمعنی ’’مرنے والا‘‘یہ لفظ اس قدر نادر ہے کہ اچھے اچھوں نے اس کو ’’موتی‘‘ پڑھا ہے۔
کچھ کم ہے ہولناکی صحرائے عاشقی
شیروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعریرہ
(دیوانِ دوم)
’’قشعریرہ‘‘ میرؔ کو اتنا پسند تھا (اور یہ لفظ ہے بھی غضب کا) کہ اسے دیوانِ دوم میں ایک بار اور ’’شکارنامۂ دوم‘‘ میں بھی استعمال کیا ہے۔
وصل کی دولت گئی ہوں تنگ فقر ہجر میں
یا الٰہی فضل کر یہ حور بعدالکور ہے
(دیوانِ پنجم)
’’حوربعدالکور‘‘ بمعنی ’’زیادتی‘‘ کے بعد’’کمی‘‘، اس کا جواب بھی میر ہی کے پاس ہے۔
کیوں کہ تو میری آنکھ سے ہو دل تلک گیا
یہ بحرِ موج خیز تو عسر العبور تھا
سرشکِ سرخ کو جاتا ہوں جو پئے ہر دم
لہو کا پیاسا علی الاتصال اپنا ہوں
(دیوانِ اوّل)
منعم کا گھر تمادیِ ایام میں بنا
سو آپ ایک رات ہی واں میہماں رہا
(دیوانِ ششم)
شیخ ہو دشمن زن رقاص
کیوں نہ القاص لایحب القاص
(دیوانِ اول)
شرم آتی ہے پونچتے اودھر
خط ہوا ہے شوق سے ترسل سا
(دیوانِ دوم)
’’ترسل‘‘کے معنی عام لغات میں نہیں ملتے۔ مندرجہ ذیل الفاظ عام طور پر غزل کے باہر سمجھے جاتے ہیں۔
(انتفاع)
کچھ ضرر عائد ہوا میری ہی اور
ورنہ اس سے سب کو پہنچا انتفاع
(دیوانِ سوم)
(مستحیل)
ہیں مستحیل خاک سے اجزائے نوخطاں
کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا
(مستہلک)
مستہلک اس کے عشق کے جانیں ہیں قدر مرگ
عیسیٰ و خضر کو ہے مزا کب وفات کا
(دیوانِ دوم)
(لیت و لعل)
جان تو یاں ہے گرم رفتن لیت و لعل واں ویسی ہے
کیا کیا مجھ کو جنوں آتا ہے اس لڑکے کے بہانوں پر
(دیوانِ دوم)
علاوہ بریں میر نے عربی کے الفاظ عربی معنی میں استعال کیے ہیں۔ مثلاً، زخم غائر (گہرا زخم)، تجرید (اکیلا پن)، تفرج (کھلنا)، صلح (معاہدہ)، کفایت (کافی)، صمد (بے نیاز۔ یہ لفظ اردو میں صرف اللہ کے نام کے طور پر مستعمل ہے) ، مُنصل (مسلسل، بے وقفہ)، متاثر (اثر کرنے والا)، وغیرہ۔
عربی الفاظ اور فقروں کے گراں نہ معلوم ہونے کی ایک وجہ شایدیہ ہے کہ میر نے ایسے الفاظ کو اکثر خوش طبعی کے ماحول میں صرف کیا ہے۔ میں نے صرف چند شعر نقل کیے ہیں اور وہ بھی ایسے جن میں عربی لفظ یا فقرہ بہت ہی نامانوس قسم کا ہے۔ ورنہ متوسط درجہ کے نامانوس عربی الفاظ یا ایسے عربی الفاظ جو عام طور پر غزل میں استعمال نہیں ہوتے، میر کے یہاں کثیر تعداد میں ہیں۔ فارسی الفاظ اور فقروں کی تعداد عربی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان میں سے بعض تو اس قدر نادر ہیں کہ پہلی نظر میں وہ مہمل معلوم ہوتے ہیں۔ فارسی کی مثالیں میں یہاں درج نہیں کر رہا ہوں کیونکہ بہت سے اشعار شرح یا انتخاب میں آ گئے ہیں۔
(۷) فارسی سے اس شغف کے باوجود میر کے کلام کی عام فضا غالبؔ سے بالکل مختلف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غالب کا تخیل بہت تجریدی ہے۔ ان کے اکثر فارسی الفاظ و تراکیب تجریدی اور غیرمرئی تصورات و اشیاء کا اظہار کرتے ہیں۔ اس لیے غالب کی فضا بہت اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ ع باوجود یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں۔
اس طرح کا مصرع تو میرؔ کے یہاں بھی مل جائےگا کیونکہ ’’یک جہاں ہنگامہ‘‘اور ’’پیدائی‘‘ میں تجرید سے زیادہ تجسیم کا رنگ ہے۔ مثلاً میر کا مصرع ہے،
یادر باز بیاباں یا درِ مے خانہ تھا
اس میں غالب کے مصرعے کی کیفیت ہے، لیکن غالب کا دوسرا مصرع۔۔۔
ہیں چراغاں شبستانِ دلِ پروانہ ہم
سراسر تجریدی ہے۔ کیونکہ پہلے تو پروانے کا دل فرض کیجیے، جو غیرمرئی ہے۔ پھر اس کا دل شبستاں تصور میں لائیے جو غیرمرئی ہے، پھر اس شبستاں میں چراغاں کو تصور میں لائیے، جو اور بھی زیادہ خیالی ہے۔ استعارے کی ندرت اور پیکر کی بصری چمک نے شعرکو غیرمعمولی طور پر حسین بنا دیا ہے ورنہ اس کے اجزا کو الگ الگ کیجیے اور پھر ان کی تجرید پر غور کیجیے تو تعجب نہیں کہ شعر بالکل غیر حقیقی دکھائی دے۔ غالبؔ کے یہاں اکثر فارسیت اس درجے کی یا اس سے بھی آگے کی ہے کیونکہ اس شعر میں لسانی الجھاؤ نہیں ہے جب کہ غالبؔ اکثر لسانی الجھاؤ پیدا کر دیتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ میر اس طرح کا تاثر پیدا کرنے سے بالکل عاری ہوں جو غالب کا خاصہ ہے۔ مثلاً دیوانِ اول کا جو مصرع جو میں نے اوپر نقل کیا، اس غزل کا ایک شعر ہے،
شب فروغ حسن کا باعث ہوا تھا حسن دوست
شمع کا جلوہ غبارِ دیدۂ پروانہ تھا
اس شعر کو غالب کے دیوان میں ملا دیجیے تو کسی کو شک نہ ہوگا یہ غالبؔ کا شعر نہیں ہے۔ پروانے کی آنکھ غیرمرئی ہے پھر اس میں غبار فرض کیجیے جو خیالی ہے، پھر شمع کے جلوہ کو اس غبار سے تعبیر کیجیے، جو تصوراتی ہے۔ لہٰذا غالب کا تجریدی رنگ میر کے یہاں ناپید نہیں۔ اگر غالب پر بیدل کااثر نہ ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ میرؔ کے تجریدی اشعار سے بھی غالب نے استفادہ کیا ہوگا، لیکن چوں کہ عام طور پر میر کا تخیل ٹھوس اور مرئی اشیاء سے کھیلتا ہے، اس لیے ان کی فارسیت غالب سے مختلف طرح کی ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ اردو کے بیشتر تصوراتی اور تجریدی الفاظ فارسی الاصل ہیں۔ اس لیے غالبؔ کی فارسیت ان کی تجریدیت کے لیے سونے پر سہاگا بن گئی۔
شمس الرحمن فاروقی