- Advertisement -

دو پیروں والی ماں

ایک اردو کالم از ڈاکٹر خالد سہیل

دو پیروں والی ماں

مجھے بچپن کا وہ زمانہ یاد ہے جب
جنگل میں ہر روز سیر کو جانا
پرندوں کی چہکار سننا
راتوں کو چاندنی میں گھومنا پھرنا
صبح سویرے شبنم بھری گھاس پر چلنا
تالابوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ نہانا
اور
اپنی ماں کا دودھ پینا
میرا معمول ہوا کرتا تھا

لیکن پھر ایک دن مجھے کچھ ایسے جانور نظر آئے جو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ وہ دبلے پتلے ہی نہ تھے۔ وہ دو پیروں پر بھی چلتے تھے اور وہ لمبی نالیوں والی چیزیں بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ پہلے تو میں نے انہیں کوئی اہمیت نہ دی لیکن مجھے جلد اندازہ ہو گیا کہ میرے چاروں طرف خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے اور پھر ان نالیوں سے آگ کے شعلے نکلے اور بہت سی مائیں تڑپنے لگیں ان میں میری ماں بھی تھی۔ میں کئی دنوں تک اداس رہا اور اپنی ماں کی لاش پر آنسو بہاتا رہا۔ نہ میرا کچھ کھانے پینے کو جی چاہتا تھا اور نہ ہی اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کو۔

چند دنوں کے بعد چند اور دو پیروں والے جانور آئے۔ پہلے تو میں ان سے گھبرایا لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ ان کے ہاتھوں میں لمبی نالیوں والی چیزیں نہیں تھیں۔ میں وہاں سے بھاگنے لگا تو انہوں نے گھیر لیا اور بڑے پیار سے مجھے جنگل سے اپنے گاؤں لے گئے۔

گاؤں پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ وہاں اور بھی بہت سے دو پیروں والے جانور تھے اور وہ میرے ان دوستوں کو بھی جنگل سے لے آئے تھے۔ جن کی مائیں شعلوں کا نشانہ بن کر مر گئی تھیں۔ ان دو پیروں والے جانوروں میں سے ایک نے مجھے دودھ پلانا چاہا۔ وہ میری ماں بننا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے اپنی ماں بہت یاد آ رہی تھی اس لئے میں نے دودھ نہ پیا۔ میری نئی ماں مجھ سے بہت پیار سے پیش آتی اور دن میں دو تین دفعہ دودھ پیش کرتی۔

آخر تیسرے دن میں نے دودھ پینا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ اس گاؤں میں میرا دل لگ گیا اور میں اپنے دو پیروں والے اور چار پیروں والے ہمجولیوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔ میری دو پیروں والی ماں دن بھر کھیتوں میں کام کرتی اور شام سورج غروب ہونے سے پہلے مجھے دودھ پلاتی اور مجھ سے بہت شفقت سے پیش آتی۔ مجھے وہ اتنی اچھی لگنے لگی تھی کہ ہر شام میں اس کا شدت سے انتظار کرتا۔

جب میں ذرا بڑا ہوا تو کبھی کبھار میری دو پیروں والی ماں اور اس کے دو پیروں والے بچے، مجھے اپنے ساتھ کھیتوں میں لے جاتے۔ اگر چہ کھیت جنگل کی طرح تو نہیں تھے لیکن پھر بھی وہاں چرند پرند ضرور تھے جن سے جنگل کا سا ماحول پیدا ہوجاتا تھا۔

جب میں ذرا اور جوان ہوا تو میری دو پیروں والی ماں مجھے جنگل کی طرف سیر کے لیے لے جاتی۔

ایک دفعہ میں بیمار ہوا تو میری ماں مجھے ہسپتال لے گئی۔ جہاں میرا علاج کیا گیا اور میں چند دن میں صحت یاب ہو گیا۔ آخر جب میں جوان ہو گیا تو ایک دن میری دو پیروں والی ماں مجھے جنگل میں چھوڑ آئی۔

اب میں چند سالوں سے اسی جنگل میں زندگی گزار رہا ہوں۔ جہاں میں پیدا ہوا تھا اور میرا بچپن کا معمول جس میں

جنگل میں ہر روز سیر کو جانا
پرندوں کی چہکار سننا
راتوں کو چاندنی میں گھومنا پھرنا
صبح سویرے شبنم بھری گھاس پر چلنا
اور
تالابوں میں نہانا شامل ہے، لوٹ آیا ہے۔

اب جب کہ میں جوان ہو گیا ہوں اور حالات کو بہتر سمجھ سکتا ہوں مجھے معلوم ہوا ہے کہ میری ماں کو اس لئے قتل کیا گیا تھا کہ اس کے دانت کسی کے ڈرائنگ روم میں سج سکیں۔

اگر چہ میں جنگل کی زندگی سے بہت خوش ہوں لیکن سورج ڈوبنے سے پہلے مجھے اپنی دو پیروں والی ماں بہت یاد آتی ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم