- Advertisement -

 موٹھی​

جیمز کاربیٹ کی تحریروں سے اردو ترجمہ

 موٹھی​

ہندوستان کی دیگر اعلٰی ذاتوں کی مانند موٹھی نازک اندام اور تیکھے نقوش کا مالک تھا اور ابھی لڑکپن کے دور میں ہی تھا کہ اس کی ماں اور باپ پورے خاندان کی ذمہ داری اس پر چھوڑ کر مر گئے۔ خوش قسمتی سے خاندان چھوٹا تھا اور اس کو صرف ایک بھائی اور ایک بہن کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ موٹھی کی عمر اس وقت چودہ برس تھی اور اس کی شادی کو چھ برس بیت چکے تھے۔ خاندان کا سربراہ بنتے ہی اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی بارہ سالہ دلہن کو رخصت کرا کے گھر لے آیا۔ شادی کے بعد اس نے پہلی بار اپنی دلہن کو دیکھا تھا۔ اس کا سسرال کوٹا دون میں رہتا تھا جو کالاڈھنگی سے بارہ میل دور ہے۔
چونکہ چھ ایکڑ کی کاشتکاری چار بچوں کے بس سے باہر تھی، سو اس نے اپنی مدد کے لیے آگی کو ملازم رکھ لیا جو خوراک اور رہائش کے علاوہ فصل سے نصف آمدنی لیتا تھا اور دونوں مل جُل کر کام کرتے تھے۔ رہائشی جھونپڑوں کو بنانے میں بانس اور گھاس استعمال ہوتی ہے جو اجازت نامے کے بعد جنگل سے لائے جاتے ہیں اور ان کو طویل فاصلے سے سر اور کندھوں پر اٹھا کر لایا جاتا ہے اور پہاڑوں کے دامن میں آنےوالے طوفانوں کی وجہ سے ان کی مسلسل مرمت ہوتی رہتی ہے، سو موٹھی اور اس کے مددگار کے لیے یہ کام کافی محنت طلب ہو رہا رہا، سو انہیں اس مشکل سے نکالنے کے لیے میں نے انہیں پختہ گھر بنوا دیا جس میں تین کمرے اور ایک برآمدہ تھا اور اس کی بنیاد زمین سے چار فٹ اونچی تھی۔ موٹھی کی بیوی چونکہ بلند مقام سے آئی تھی، سو اس کے سوال باقی ہر بندہ مستقل ملیریا سے کمزور تھا۔
اپنی فصلوں کو بچانے کے لیے مزارع پورے گاؤں کے گرد خاردار جھاڑیوں سے باڑ بنا دیتے تھے مگر اس پر کئی ہفتے لگتے اور آوارہ مویشی اور جنگلی جانوروں سے کم ہی بچت ہو پاتی۔ سو جب فصلیں تیار ہونے لگتیں تو مزارع یا ان کے گھر والے مل کر کھیتوں میں رت جگا کرتے۔ آتشیں ہتھیاروں پر سخت پابندی تھی، سو ہمارے چالیس مزارعوں کے لیے حکومت کی جانب سے صرف ایک مزل لوڈر بندوق کی اجازت تھی۔ سو ایک بندہ اپنی فصلیں تو بچا لیتا مگر دیگر انتالیس افراد کی فصلیں بچانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ساری رات بیٹھ کر ٹین ڈبے کھڑکاتے رہیں۔ اگرچہ بندوق سے سیہ اور سورؤں کی کافی تعداد ہلاک ہوتی تھی مگر پھر بھی نقصان خاصا ہوتا رہا کیونکہ اس گاؤں کے ارد گرد جنگل ہی جنگل تھا۔ سو جب موکما گھاٹ پر میرے ٹھیکے سے آمدنی شروع ہوئی تو میں نے گاؤں کے گرد پختہ دیوار بنوانا شروع کر دی۔ جب یہ دیوار مکمل ہوئی تو یہ چھ فٹ اونچی اور تین میل طویل تھی۔ اس کی تکمیل پر دس سال لگے کہ میری آمدنی کافی محدود تھی۔ اگر آج آپ ہلدوانی سے رام نگر براستہ کالاڈھنگی جائیں تو دریائے بور عبور کر کے جنگل میں داخل ہونے سے قبل آپ اس دیوار کے بالائی سرے کے قریب سے مڑیں گے۔
ایک بار دسمبر کی سرد صبح کو میں اپنے شکاری کتے روبن کے ساتھ سیر کر رہا تھا اور روبن میرے سامنے سفید تیتروں کے جھنڈ اڑاتا جا رہا تھا جنہیں روبن سے پہلے کسی نے تنگ نہیں کیا تھا کیونکہ دیہاتی لوگ صبح اور شام ان تیتروں کی آواز کو بہت شوق سے سنتے ہیں۔ یہیں آبپاشی کی ایک نالی کے کنارے میں نے سور کے پگ دیکھے۔ اس سور کی کچلیاں بہت بڑی، مڑی ہوئی اور خوفناک تھیں اور ہر کوئی اسے بخوبی جانتا تھا کہ یہ سور بچھڑے کے حجم کا ہو چکا تھا اور خاردار باڑ میں سوراخ کر کے اور فصلیں کھا کھا کر خوب موٹا ہو چکا تھا۔ اگرچہ پختہ دیوار سے شروع شروع میں وہ پہلے پہلے تو مشکل کا شکار ہوا تھا مگر پھر وہ دیوار پر چڑھنا سیکھ گیا۔ بہت مرتبہ چوکیداروں نے اس پر گولی چلائی تھی اور ایک بار تو اس کے پیچھے خون کی لکیر بھی دکھائی دی تھی مگر کوئی بھی زخم کاری نہ ثابت ہو سکا اور نتیجتاً وہ اور بھی محتاط ہوگیا۔
اس روز سور کے پگ موٹھی کے کھیتوں کو جا رہے تھے اور جونہی میں اس کے گھر پہنچا تو اس کی بیوی کھڑی دکھائی دی جو اپنے ہاتھ کمر پر رکھے کھڑی آلو کےکھیت میں ہونے والی تباہی کا جائزہ لے رہی تھی۔ چونکہ آلو ابھی پوری طرح تیار نہیں ہوئے تھے اور سور بہت بھوکا تھا، سو اس نے پورا کھیت اجاڑ کر رکھ دیا۔ جتنی دیر روبن سور کی روانگی کی سمت کا اندازہ لگاتا، اس عورت نے اپنا غصہ نکالنا شروع کیا: ‘یہ سب پنوا کے باپ کا قصور ہے۔ رات کو بندوق کی باری اس کی تھی اور بجائے اس کے کہ گھر رک کر اپنے کھیت کی حفاظت کرتا، اس نے کہا کہ کالو کے گندم کے کھیت کی نگرانی کرے گا کہ وہاں سانبھر کے آنے کا امکان ہے۔ جتنی دیر وہ باہر رہا، دیکھیں کہ شیطان کتنا نقصان کر گیا۔‘ ہندوستان میں کوئی عورت اپنے شوہر کا نام نہیں لیتی اور نہ ہی اسے نام لے کر مخاطب کرتی ہے۔ بچوں سے پہلے اسے سرتاج اور پھر بعد میں پہلے بچے کے باپ کے نام سے مخاطب کرتی ہے۔ موٹھی کے تین بچے پیدا ہو چکے تھے جن میں سے پنوا سب سے بڑا تھا اور اس کی بیوی اسے پنوا کا باپ کہتی تھی اور خود اسے سارا گاؤں پنوا کی ماں کہتا تھا۔
پنوا کی ماں پورے گاؤں میں سب سے زیادہ محنتی ہونے کے علاوہ سب سے تلخ زبان کی مالکن بھی تھی۔ اس نے پنوا کے باپ کو بہت کچھ کہنے کے بعد میری جانب رخ کیا اور کہا کہ میں نے اس دیوار پر پیسے ضائع کیے ہیں کہ سور اس پر چڑھ کر اس کے آلو کھا گیا ہے۔ اب یہ میرا فرض ہے کہ اس سور کو شکار کروں اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو دیوار کو مزید چند فٹ اونچا کرا دوں تاکہ سور نہ چڑھ سکے۔ شکر ہے کہ موٹھی واپس آ گیا اور اس کی بیوی کے غصے کا رخ اس کی جانب ہو گیا۔ روبن کو سیٹی بجا کر میں نے واپسی کا رخ کیا۔
اس شام میں نے دیوار کی دوسری جانب سے سور کے پگ کا تعاقب شروع کیا اور دو میل تک اس کا پیچھا کرتا رہا، آخرکار یہ نشانات امبل کی خاردار جھاڑیوں تک جا پہنچے۔ اس جگہ میں ایک بڑے پتھر کے پیچھے آرام سے چھپ گیا کہ اس بات کا کافی امکان تھا کہ اندھیرا چھانے سے قبل ہی سور باہر نکل آتا۔ دریائے بور کے کنارے سا پتھر کے پیچھے چھپ کر بیٹھے ہوئے مجھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ مادہ سانبھر جنگل کے بالائی سرے سے بولنے لگی جہاں کئی برس بعد میں نے پوال گڑھ کے کنوارے شیر کو شکار کیا تھا۔ مادہ سانبھر جنگلی جانوروں کو شیر کی موجودگی سے خبردار کر رہی تھی۔ دو ہفتے قبل تین شکاری آٹھ ہاتھیوں کے ہمراہ کالاڈھنگی پہنچے اور انہوں نے اس جنگل میں رہائش پذیر شیر کا شکار کرنا تھا جس جنگل میں شکار کا اجازت نامہ میرے پاس تھا۔
دریائے بور میرے جنگل اور دوسرے جنگل کے درمیان حد کا کام کرتا تھا اور یہ شکاری دوسرے جنگل میں شکار کا اجازت نامہ لے کر آئے تھے۔ انہوں نے دریا کی دوسری جانب 14 بھینسے باندھ کر شیر کو گارے کی دعوت دی تھی۔ دو بھینسے شیر کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور باقی بارہ بے توجہی سے ہلاک ہوئے اور رات کو نو بجے مجھے بھاری رائفل کی آواز سنائی دی تھی۔ میں اس پتھر کے پیچھے دو گھنٹے بیٹھا سانبھر کی آواز سنتا رہا مگر سور دکھائی نہ دیا۔ جب گولی چلانے کے قابل روشنی نہ رہی تو میں نے دریا عبور کیا اور کوٹا سڑک پر چل پڑا۔ راستے میں جن غاروں میں بڑا اژدہا رہتا ہے، وہاں سے اور جس جگہ ایک ماہ قبل محکمہ جنگلات کے بل بیلی نے 12 فٹ لمبا شیش ناگ مارا تھا، محتاط ہو کر گزرا۔ گاؤں میں داخل ہو کر موٹھی کے گھر پر رکا اور اسے آواز دی کہ اگلی دن صبح پو پھٹتے ہی میرے ساتھ چلنے کو تیار رہے۔
بہت سالوں سے موٹھی میرے ساتھ ان جنگلات میں شکار کے لیے جاتا رہا تھا۔ موٹھی ذہین اور پرتجسس تھا اور اس کی بصارت اور سماعت بھی اچھی تھیں اور جنگل میں خاموشی سے چلنے کے علاوہ بہادر بھی تھا۔ کبھی وہ طے کردہ وقت سے تاخیر سے نہیں پہنچا۔ شبنم سے بھیگے جنگل میں چلتے ہوئے اور جنگلی جانوروں اور پرندوں کی آوازیں سنتے ہوئے میں نے اسے بتایا کہ گذشتہ شام میں نے مادہ سانبھر کی آواز کافی دیر تک سنی تھی، شاید شیر نے اس کے بچے کو شکار کیا ہوگا اور وہاں رک کر اس نے شیر کو پیٹ بھرتے دیکھا ہوگا۔ یہ جنگلی جانوروں کا عام رویہ ہے اور مجھے اس کے علاوہ سانبھر کی مسلسل آواز کی کوئی وجہ نہیں سمجھ آئی۔
موٹھی کو تازہ شکار کی امید سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ اس کی محدود آمدنی سے وہ مہینے میں محض ایک بار ہی گوشت خرید سکتا تھا اور سانبھر ہو یا چیتل یا سور، چاہے اسے شیر نے مارا ہو یا پھر تیندوے نے، اس کے لیے نعمتِ خداوندی تھی۔ میں نے گذشتہ رات سانبھر کی آواز کا اندازہ اپنی نشست سے پندرہ سو گز شمال کی جانب لگایا تھا۔ جب ہم اس جگہ پہنچے تو کسی جانور کی لاش نہ دکھائی دی اور ہم نے زمین پر خون یا گھسیٹنے کے نشانات تلاش کرنا شروع کیے تاکہ لاش تک پہنچ سکیں کہ مجھے ابھی بھی یقین تھا کہ شیر نے ہی یہ شکار کیا ہوگا اور ہم لاش پا لیں گے۔
اس جگہ چند سو گز دور پہاڑی سے آنے والے دو نشیب ملتے تھے۔ دونوں نشیب تیس گز کے فاصلے سے متوازی آ رہے تھے۔ موٹھی نے کہا کہ وہ دائیں جانب والے نشیب کو دیکھتا ہے جبکہ میں بائیں کو دیکھوں۔ چونکہ درمیانی فاصلہ کم اور چند ہی جھاڑیاں تھیں، سو ہم ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے تھے، میں نے حامی بھر لی۔
سو گز تک ہم پوری توجہ سے زمین کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھے اور ہماری رفتار کافی سست تھی، جب میں نے سر موڑ کر موٹھی کو دیکھا تو عین اسی لمحے اس نے چلاتے ہوئے واپس بھاگنا شروع کیا۔ اس کے ہاتھ ایسے ہل رہے تھے جیسے مکھیاں اڑا رہا ہو اور چلاتا جا رہا تھا۔ اس خاموش جنگل میں اچانک انسانی چیخوں کی آواز آنا کافی خوفناک ہوتا ہے اور اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ فوراً ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ کیا ہوا ہوگا۔ زمین پر توجہ سے بال یا خون کے نشانات دیکھتے ہوئے موٹھی سامنے کا اندازہ نہ کر سکا ہوگا اور سیدھا شیر تک جا پہنچا ہوگا۔ اسے کوئی زخم پہنچے یا نہیں، اس وقت کہنا مشکل تھا کہ مجھے اس کے کندھے اور سر دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے رائفل سے اس کے عین پیچھے کا نشانہ لیا اور منتظر رہا کہ کوئی حرکت دکھائی دے تو گولی چلاؤں مگر خوشی ہوئی کہ کوئی حرکت نہ دکھائی دی۔ جب موٹھی سو گز دور پہنچا تو میں ںے جان لیا کہ وہ اب محفوظ ہے۔ پھر میں نے چلا کر اسے رکنے کو کہا اور بتایا کہ میں آ رہا ہوں۔ چند گز پیچھے کو چل کر کہ مجھے علم نہیں تھا کہ شیر کہاں ہوگا، میں موٹھی کی طرف بعجلت چل پڑا۔ درخت سے کمر لگائے وہ کھڑا دکھائی دیا اور اس کے کپڑوں پر اور زمین پر خون کا کوئی دھبہ نہ دیکھ کر مجھے سکون ملا۔ جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے پوچھا کہ کیا ہوا، اور میں نے جب اسے بتایا کہ کچھ بھی نہیں ہوا تو وہ بہت حیران ہوا۔ پھر اس نے پوچھا کہ شیر نے جست نہیں لگائی یا پیچھا نہیں کیا تو میں نے جواب دیا کہ تمہاری پوری کوشش تھی کہ شیر ایسا کرتا، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے جواب دیا: ‘مجھے علم ہے صاحب کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، مگر۔۔۔ میں۔۔۔ خود۔۔۔ کو۔۔۔ روک۔۔۔ نہ۔۔۔ پایا۔۔۔۔‘ یہ کہتے ہوئے وہ اچانک بیہوش ہو کر زمین پر گرنے لگا کہ میں نے اسے تھام لیا۔ کافی دیر تک وہ بے حس و حرکت پڑا رہا اور مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس صدمے سے وہ مر تو نہیں گیا۔
ایسی صورتحال میں جنگل میں کم ہی کچھ کیا جا سکتا ہے اور میں نے وہ سب کچھ کیا۔ میں نے موٹھی کو پیٹھ کے بل لٹایا اور اس کے کپڑے ڈھیلے کر کے اس کے دل کی مالش کی۔ جب میں امید کا دامن چھوڑنے لگا تھا کہ اب اس کی لاش کو اٹھا کر گاؤں لے جاتا ہوں کہ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ جب آرام سے درخت سے کمر ٹکا کر بیٹھنے کے بعد اس نے نصف سگریٹ پی لیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔ اس نے بتایا: ‘میں بال اور خون تلاش کرتے ہوئے تھوڑا ہی فاصلہ گیا ہوں گا مجھے ایک پتے پر ایسا لگا کہ خون کا خشک دھبہ موجود ہے۔ میں نے جُھک کر اسے دیکھا اور جب نظریں اٹھائیں تو میرے عین سامنے شیر تھا۔ شیر میری جانب منہ کیے تین یا چار گز دور بیٹھا تھا۔ اس کا سر زمین سے تھوڑا سا بلند تھا اور منہ کھلا ہوا اور اس کی تھوڑی اور سینے پر خون ہی خون تھا۔ اس نے مجھے ایسے دیکھا کہ جست کرنے ہی لگا ہو، سو میں نے حواس باختہ ہو کر دوڑ لگا دی۔‘ اس نے سانبھر کی لاش نہیں دیکھی۔ اس نے بتایا کہ اس جگہ جھاڑیاں نہیں تھیں اور کھلا نشیب تھا، سو سانبھر کی لاش نہیں دکھائی دی۔
موٹھی کو وہیں رکنے کا کہہ کر میں نے اپنی سگریٹ بجھائی اور معاملے کو دیکھنے چل پڑا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیسے کھلے منہ والا شیر، جس کی تھوڑی اور سینے پر خون ہو، کیسے موٹھی کو چند قدم کے فاصلے تک آنے دیتا اور پھر جب وہ چیخنے لگا تو اسے واپس کیسے جانے دیا؟انتہائی احتیاط کے ساتھ اس جگہ پہنچا جہاں کھڑے ہو کر موٹھی نے چلانا شروع کیا تھا اور دیکھا کہ سامنے خالی زمین تھی جس پر شیر نے خشک پتے جمع کر کے ان پر لوٹنیاں لگائی تھیں اور اس کے ساتھ خون کا نصف دائرہ سا بنا ہوا تھا۔ شیر کے لیٹنے کی جگہ سے بچ کر میں دوسری جانب پہنچا تاکہ نشانات خراب نہ ہوں، اور دیکھا کہ دوسرے سرے سے خون کی تازہ لکیر جا رہی تھی جو بظاہر بغیر کسی وجہ کے آڑی ترچھی جا رہی تھی۔ اس کا رخ پہاڑی کی جانب تھا اور پھر یہ لکیر پہاڑ کے دامن میں ایک جانب کو مڑ کئی سو گز متوازی چلتے ہوئے پھر ایک گہری اور تنگ وادی میں داخل ہو گئی جہاں چشمہ موجود تھا۔ یہ وادی پہاڑوں سے آ رہی تھی اور شیر اوپر کی جانب گیا تھا۔ پھر میں واپس لوٹا اور دیکھا کہ جہاں شیر لوٹنیاں لگاتا رہا تھا اور نشانات کا تفصیلی معائنہ کیا۔ یہاں جمے ہوئے خون میں چند دانت اور ہڈیوں کے ریزے بھی پڑے تھے۔ ان شواہد سے مجھے جواب مل گیا۔ دو رات قبل والی رائفل کی گولی نے شیر کا نچلا جبڑا توڑ دیا ہوگا اور شیر نے اپنی قیام گاہ والی وادی کارخ کیا ہوگا۔ جتنی دیر اس کی برداشت اور جریانِ خون نے اجازت دی ہوگی، وہ گیا ہوگا اور پھرتکلیف کی شدت سے وہیں لیٹ گیا اور یہاں مادہ سانبھر اسے دیکھ کر بولنے لگی۔ تیس گھنٹے بعد موٹھی یہاں اس کے قریب پہنچا۔
کسی جانور کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ زخم اس کے نچلے جبڑے کا ٹوٹنا ہوتا ہے اور جب موٹھی شیر کے قریب پہنچا ہوگا تو بیچارہ شیر نیم بیہوشی کی حالت میں ہوگا کہ موٹھی نے شور مچانا شروع کیا۔ سو شیر اٹھا اور ٹھوکریں کھاتا اس وادی کی جانب چل پڑا جہاں اسے علم تھا کہ پانی موجود ہے۔
اپنے اندازے کی درستی جاننے کے لیے میں نے موٹھی کے ساتھ دریا عبور کیا اور ساتھ والے جنگل میں گھسا جہاں چودہ بھینسے باندھے گئے تھے۔ یہاں ایک اونچے درخت پر بندھی مچان دکھائی دی جہاں تین شکاری بیٹھے تھے اور جب شیر گارے کو کھانے آیا تو اس پر گولی چلائی۔ اس جگہ سے خون کی موٹی لکیر دریا تک آئی تھی اور اس لکیر کے دونوں اطراف میں ہاتھیوں کے قدموں کے نشانات موجود تھے۔ موٹھی کو دائیں کنارے پر چھوڑ کر میں نے پھر دریا عبور کر کے اپنے جنگل کا رخ کیا اور دیکھا دوسری جانب خون کی لکیر اور ساتھ ساتھ ہاتھیوں کے نشان بھی چل رہے تھے جو پانچ یا چھ سو گز دور گھنی جھاڑیوں تک گئے تھے۔اس جگہ ہاتھی کچھ دیر تک رکے رہے اور پھر دائیں جانب مڑ کر کالاڈھنگی کو چل دیے۔ یہاں کچھ دیر میری ان سے ملاقات ہوئی تھی کہ میں اس وقت اس بوڑھے سور کے شکار کی نیت سے آ رہا تھا۔ جب ان شکاریوں نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں تو میرا جواب سن کر ایک شکاری نے کچھ بتانے کی کوشش کی تھی مگر اس کے ساتھیوں نے اسے فوراً روک دیا تھا۔ جب یہ تینوں شکاری فارسٹ بنگلے کو اپنے ہاتھیوں سمیت روانہ ہو گئے، میں پیدل اور بغیر کسی تنبیہ کے اس جنگل کو روانہ ہو گیا جہاں وہ زخمی شیر کو چھوڑ کر آئے تھے۔
جہاں موٹھی میرا منتظر تھا، وہاں سے گاؤں تین میل دور تھا اور ہمیں تین گھنٹے لگ گئے کہ موٹھی کی حالت بہت کمزور تھی۔ اسے اس کے گھر چھوڑ کر میں سیدھا فارسٹ بنگلے کو گیا اور دیکھا کہ تینوں شکاری اپنا سامان باندھے روانہ ہونے کو تیار تھے تاکہ ہلدوانی سے ٹرین پکڑ سکیں۔ برآمدے کی سیڑھیوں پر ہم نے کچھ دیر بات کی، زیادہ تر میں ہی بولتا رہا۔ جب مجھے علم ہوا کہ شیر کو ہلاک نہ کرنے کی وجہ محض ایک عام سی تقریب میں شرکت ہے، تو میں نے واضح طور پر انہیں بتا دیا کہ اگر صدمے سے موٹھی کی جان گئی یا پھر شیر نے میرے کسی مزارع کو ہلاک کیا تو میں ان پر قتل کا مقدمہ چلاؤں گا۔
اس بات کے بعد وہ روانہ ہو گئے اور اگلی صبح میں بھاری رائفل لے کر اس کھائی میں گھسا جہاں شیر گیا تھا۔ میری نیت ان شکاریوں کے لیے شیر کی کھال لانا نہیں تھی بلکہ میرا مقصد زخمی شیر کو اس کی تکلیف سے نجات دلانا تھا۔ پھر میں اس کی کھال جلا دیتا۔ تاہم میں نے کھائی کو نیچے سے اوپر تک اور دونوں اطراف کی پہاڑیوں پر چھان مارا، مگر سارا دن مجھے شیر کا کوئی نشان نہ ملا۔ کھائی میں شیر کے داخل ہوتے ہی شیر کے خون کی لکیر ختم ہو گئی تھی۔
دس دن بعد ایک فارسٹ گارڈ گشت پر تھا کہ اس نے شیر کی باقیات دیکھیں جن پر گدھ اپنا کام دکھا چکے تھے۔ اسی سال موسمِ گرما میں حکومت نے قانون بنایا کہ غروبِ آفتاب سے طلوعِ آفتاب تک شیر کے شکار کے لیے مچان پر بیٹھنے پر پابندی ہوگی اور کسی بھی زخمی جانور کو ہلاک کرنے کے لیے شکاری ہر ممکن کوشش کرے گا اور ایسے کسی واقعے کی اطلاع فوری طور پر نزدیکی افسرِ جنگلات اور پولیس چوکی کو بھی دے گا۔موٹھی کے ساتھ یہ واقعہ دسمبر میں پیش آیا اور جب اپریل میں وہ کالاڈھنگی سے نکلا تو اس کی حالت پہلے سے بہتر تھی۔ مگر قسمت اس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ مہینہ بعد اس نے کھیت کی نگرانی کے دوران ایک تیندوے پر گولی چلائی اور اگلی صبح جب اس کی تلاش میں نکلا تو تیندوے نے اسے بری طرح گھائل کیا۔ ابھی وہ ان زخموں سے بمشکل صحت یاب ہوا تھا کہ ایک گائے کی ہلاکت اس کے گلے پڑ گئی جو کسی ہندو کے لیے سب سے بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ گائے بہت بوڑھی اور بیکار تھی اور ساتھ والے گاؤں سے آوارہ پھرتی موٹھی کے کھیت میں چرنے جا پہنچی۔ جب موٹھی نے اسے بھگانے کی کوشش کی تو اس گائے کا پیر چوہے کے بل میں پھنس کر ٹوٹ گیا۔ کئی ہفتے تک یہ گائے موٹھی کے کھیت میں لیٹی رہی اور موٹھی اس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ آخرکار یہ گائے مر گئی اور چونکہ یہ معاملہ گاؤں کے پجاری کے بس سے باہر تھا، سو اس نے موٹھی کو ہردوار یاترا جانے کا کہا۔ یاترا کے لیے رقم ادھار لینے کے بعد موٹھی ہردوار کو روانہ ہو گیا جہاں اس نے بڑے پنڈت سے ملاقات کی اور اپنے جرم کا اقرار کیا۔ کافی غور و فکر کے بعد پنڈت نے اسے مندر کو دان چڑھانے کو کہا اور کہا کہ اس طرح اس کا پاپ مٹ جائے گا مگر اسے پچھتاوا بھی ظاہر کرنا ہوگا۔ پنڈت نے پھر پوچھا کہ اسے کس چیز سے سب سے زیادہ لطف آتا ہے۔ موٹھی نے بلاجھجھک کہا کہ وہ شکار کھیلنے اور گوشت کھانے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ پنڈت نے موٹھی کو تادمِ مرگ ان دونوں چیزوں سے اجتناب برتنے کا حکم دیا۔
یاترا کے بعد جب موٹھی گاؤں واپس لوٹا تو گناہوں سے پاک مگر عمر بھر کی سزا کے ساتھ آیا۔ شکار کا موقع اسے کم ہی ملتا تھا کہ مزل لوڈنگ بندوق پورے گاؤں میں باری باری پھرتی تھی اور اسے شکار کے لیے گاؤں کے آس پاس ہی رہنا ہوتا تھا کہ اس کی حیثیت کا بندہ سرکاری جنگلات میں شکار کھیلنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ پھر بھی اس پرانی مزل لوڈنگ بندوق یا کبھی کبھار اسے میں سرکاری قوانین کے برعکس اپنی رائفل سے بھی شکار کا موقع دیا کرتا تھا، اسے اس میں بہت مزہ آتا تھا۔ سزا کا یہ حصہ تو بہت سخت تھا ہی مگر دوسرا حصہ اس سے بھی سخت تر تھا کہ اس کی صحت پر اثر پڑنے لگا۔ اگرچہ اس کی آمدنی میں گوشت کم ہی خریدا جا سکتا تھا مگر سیہ اور سور بکثرت تھے اور کبھی کبھار رات کو ہرن بھی کھیتوں میں آ جاتے۔ یہ ہمارے گاؤں کا رواج تھا جس پر میں بھی عمل کرتا تھا کہ ایک بندے کا شکار سب میں تقسیم ہوگا، سو موٹھی کو ہمیشہ گوشت خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ہردوار کی یاترا والے سال اسے شدید کھانسی لاحق ہو گئی۔ جب عام ٹوٹکے ناکام ہو گئے تو میں نے ان دنوں کالاڈھنگی سے گزرنے والے اپنے ایک ڈاکٹر دوست سے اس کا معائنہ کرایا تو پتہ چلا کہ اسے تپ دق ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر کی تجویز پر میں نے موٹھی کو بھوالی کے سینی ٹوریم بھجوا دیا جو تیس میل دور تھا۔ پانچ روز بعد وہ اس ہسپتال کے سربراہ کا خط لے کر آیا کہ موٹھی کے بچنے کا کوئی امکان نہیں اس لیے وہ اسے داخل نہیں کر سکتے۔ ان دنوں ہمارے ساتھ ایک میڈیکل مشنری تھا جو کئی سال تک سینی ٹوریم میں کام کر چکا تھا۔ اس نے مشورہ دیا کہ موٹھی کو کھلی فضا میں سلائیں اور ہر روز ایک کلو دودھ میں چند قطرے پیرافین کے ڈال کر پلائیں۔ سو سردیوں کے بقیہ دن موٹھی کھلے میں سوتا رہا اور علی الصبح برآمدے کی سیڑھیوں پر میرے ساتھ سگریٹ پیتے ہوئے ہماری گایوں کا دودھ پیتا۔
ہندوستان کے غریب تقدیر پر یقین رکھتے ہیں اور ان میں بیماریوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جب ہم گرمیوں میں اپنے گرمائی گھر کو روانہ ہوئے تو موٹھی کے ساتھ ہماری ملاقاتیں تو ختم ہو گئیں مگر ہمارا تعلق اور تعاون جاری رہا۔ ایک ماہ بعد موٹھی اس جہان سے گزر گیا۔ہمارے پہاڑی دیہاتوں کی خواتین بہت محنتی ہوتی ہیں اور موٹھی کی بیوہ یعنی پنوا کی ماں ان سے زیادہ محنتی تھی۔چھوٹی جسامت کی اور مضبوط خاتون جس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی، اپنی ذات پات کے قوانین کی وجہ سے دوبارہ شادی نہ کر سکتی تھی، نے اپنے بچوں اور ہمسائیوں کی مدد سے ہل چلانے اور کاشتکاری کے دیگر کام کرنا شروع کر دیے۔
کنٹھی کی عمر دس برس تھی اور اس کی شادی ہو چکی تھی مگر رخصتی میں ابھی پانچ سال باقی تھے، ہر کام میں اپنی ماں کی مدد کرتی جن میں کھانا پکانا اور برتن دھونا، کپڑے دھونا اور ان کو رفو کرنا کہ ان کی ماں کو اپنے بچوں کے کپڑوں کی بہت فکر ہوتی تھی اور چاہے وہ جتنی مرتبہ بھی رفو کیے ہوئے ہوں، مگر ہمیشہ صاف اور اجلے ہوتے تھے، دریائے بور سے پانی بھر کر لانا، آگ کی خاطر جنگل سے لکڑیاں لانا، دودھیل گایوں اور بچھڑوں کے لیے جنگل سے گھاس اور نرم پتے لانا، فصل سے جڑی بوٹیاں نکالنا اور فصل کی کٹائی، گندم کی بالیوں سے دانے نکالنا (پتھر میں سوراخ کر کے اس میں لوہے کے بھاری ڈنڈے سے کام کرنا، جو طاقتور انسان کو بھی تھکا دیتا ہے)، پنوا کے لیے گندم کے دانے چھانٹنا تاکہ وہ پن چکی سے پسوا لائے، اکثر دو میل دور بازار سے جا کر بھاؤ تاؤ کر کے خوراک اور کپڑے وغیرہ لانا بھی اسی کے ذمے تھا۔ تیسرا بچہ شیر سنگھ تھا جو سب سے چھوٹا تھا، اس کی عمر آٹھ سال تھی۔ صبح آنکھ کھلنے سے رات کا کھانا کھا کر سونے تک وہ ہر وہ کام کرتا جو اس کی عمر کے بچے کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہل بھی چلاتا کہ جب بیلوں کو موڑنا ہوتا تو پنوا ہل کو قابو نہ کر سکتا تھا۔
شیر سنگھ کو دنیا کی کوئی فکر نہ تھی اور اس سے زیادہ خوش بچہ پورے گاؤں میں نہ تھا۔ جب بھی وہ نظروں سے اوجھل ہوتا تو اس کی آواز سنائی دیتی کہ اسے گانے کا بہت شوق تھا۔ ان کے مویشیوں میں چار بیل، بارہ گائیں، آٹھ بچھڑے اور لالو نامی ایک بیل تھا جو اس کی خصوصی توجہ کا مرکز تھا۔ ہر صبح دودھ دوہنے کے بعد وہ باڑے کا دروازہ کھول کر جانوروں کو باہر نکالتا اور پھر باڑے کی صفائی میں لگ جاتا۔ جب ناشتے کا وقت ہوتا تو کنٹھی یا پنوا اسے بلاتے اور وہ دودھ کا کنستر اٹھا کر گھر کو بھاگتا۔ ناشتے میں تازہ چپاتیاں اور دال ہوتی جس میں خوب ہری مرچیں اور نمک ہوتا اور دال سرسوں کے تیل میں پکی ہوتی۔ ناشتے کے بعد گھر کے دیگر چھوٹے موٹے کام کرکے وہ دن کے اصل کام کو نکلتا۔ یہ کام مویشیوں کو جنگل میں چرانے لے جانا تھا اور انہیں گم ہونے سے اور تیندوؤں اور شیروں سے بچانا تھا۔ چاروں بیل اور بارہ گائیں باڑے کے ساتھ ہی میدان میں لیٹ کر دھوپ سینک رہے ہوتے تھے اور کنٹھی کوبچھڑوں کا خیال رکھنے کاکہہ کر شیر سنگھ مویشیوں کے ساتھ کندھے پر کلہاڑی رکھ کر سب جانوروں کو اپنے آگے ہنکاتا ہوا چلتا او رلالو اس کے پیچھے چلتا۔ ان کا رخ دریائے بور کو عبور کر کے دوسری جانب جنگل کو ہوتا۔ شیر سنگھ ہر جانور کو اس کے نام سے مخاطب کرتا تھا۔ لالو سب سے کم عمر بیل تھا جس نے آگے چل کر ہل چلانے کا فریضہ سرانجام دینا تھا اور وہ شیر سنگھ کا دودھ شریک بھائی تھا کہ دونوں نے ایک ہی گائے کا دودھ پیا تھا۔ تاہم جس وقت کے بارے میں لکھ رہا ہوں، اس وقت یہ بیل ہر فکر سے آزاد اور شیر سنگھ کا غرور تھا۔ شیر سنگھ نےاس کا نام لالو رکھا تھا جس کا مطلب سرخ ہے۔ تاہم لالو سرخ نہیں تھا۔ اس کا رنگ سرمئی تھا اور کندھوں پر نشانات پڑے تھے اور پوری کمر پر تقریباً کالی لکیریں تھیں۔ اس کےسینگ چھوٹے، مضبوط اور نوکیلے تھے۔ اس کے سموں پر لکیریں بنائی گئی تھیں۔ جب انسان اور جانور ایسی جگہ رہیں جہاں دونوں کو مشترکہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہو، دونوں ایک دوسرے میں ہمت اور اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ شیر سنگھ کے اجداد ہمیشہ سے جنگلوں میں رہتے آئے تھے، سو اسے جنگلی جانوروں کا کوئی خوف نہیں تھا اور لالو نوجوان اور تیکھے مزاج کا تھا، کو خود پر لامحدود غرور تھا۔ سو شیر سنگھ نے لالو کو حوصلہ دیا اور لالو نے شیر سنگھ کو اعتماد دیا۔ نتیجتاً شیر سنگھ کے مویشی جنگل میں اتنی دور تک جاتے تھے کہ جہاں کوئی اور بندہ اپنے مویشی نہیں لے جاتا تھا اور اس کے مویشی دوسروں سے زیادہ موٹے تازے تھے اور شیر سنگھ کو اس بات پر بجا فخر تھا کہ کبھی کسی شیر یا تیندوے نے اس کے مویشیوں پر بری نگاہ نہیں ڈالی تھی۔ ہمارے گاؤں سے چار میل کے فاصلے پر پانچ میل لمبی ایک وادی تھی جو شمالاً جنوباً تھی اور خوبصورتی اور جنگلی حیات میں پورے صوبجات متحدہ کے پانچ ہزار مربع میل میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس وادی کے بالائی سرے سے ایک چشمہ نکلتا ہے جو بتدریج بڑا ہوتا جاتا ہے اور جہاں اژدہا رہتا ہے، وہاں ایک غار سی بناتا ہے اور اس کے اوپر جامن کا پرانا درخت ہے۔ اس چشمے کے پانی میں جگہ جگہ چھوٹی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جن پر پانچ مختلف اقسام کے کنگ فشر پلتے ہیں۔
وادی میں پھولدار اور پھلدار درخت اور جھاڑیاں ہیں جن کا رس پینے کو بے شمار پرندے اور انہیں کھانے بے شمار جانور آتے ہیں اور نتیجتاً شکاری پرندے اور درندے بھی اپنا پیٹ بھرنے کو اِدھر کا رخ کرتے ہیں۔ گھنی جھاڑیوں میں انہیں خوب چھپنے کی جگہ مل جاتی ہے۔ جگہ جگہ ندی کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی آبشاریں بن گئی ہیں جہاں چوڑے پتوں والی خودرو گھاس اگ آتی ہے جو کاکڑ اور سانبھروں کو بہت پسند ہوتی ہے۔ یہ وادی میری پسندیدہ شکار گاہ ہے۔ ایک بار سردیوں میں کالا ڈھنگی سے آنے کے بعد میں ایک جگہ کھڑا وادی کا جائزہ لے رہا تھا کہ میرے بائیں جانب گھاس کے قطعے میں حرکت محسوس ہوئی۔ کافی دیر تک غور کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس انتہائی ڈھلوان قطعے پر ایک جانور اپنا پیٹ بھر رہا ہے۔ا س جانور کا رنگ سانبھر سے بہت ہلکا اور کاکڑ سے زیادہ بڑا تھا، سو میں چھپ کر اس کو دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔ جونہی میں روانہ ہوا تو نیچےو ادی میں شیر کی آواز آنے لگی جو مجھ سے چند سو گز نیچے تھا۔ جب اس جانور نے شیر کی آواز سنی تو سر اٹھایا اور مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ لالو تھا۔ سر اٹھائے وہ بالکل بے حرکت کھڑا شیر کی آواز سنتا رہا اور جب شیر نے بولنا بند کیا تو اس نے پھر گھاس کھانا شروع کر دی۔ لالو کے لیے یہ مقام ممنوع تھا کہ حکومتی محفوظ جنگلات میں مویشی چرانے کی ممانعت ہے اور لالو کو شیر سے خطرہ بھی تھا۔ سو میں نےلالو کو نام لے کر پکارا ور تھوڑی جھجھک کے بعد وہ میرے قریب آ گیا اور ہم دونوں مل کر گاؤں کو روانہ ہو گئے۔ شیر سنگھ اپنے مویشی باڑے میں باندھ رہا تھا کہ ہم پہنچے۔ جب میں نے اسے بتایا کہ لالو کہاں ملا ہے تو وہ ہنس کر بولا: ‘صاحب، پریشان نہ ہوں۔ فارسٹ گارڈ میرا جاننےو الا ہے اور لالو کو پھاٹک نہیں بند کرے گا اور شیر کے لیے لالو اکیلا ہی کافی ہے۔‘
اس کے کچھ عرصے بعد جنگلات کے چیف کنزرویٹر سمیدیز اپنی بیوی کے ساتھ کالا ڈھنگی کے دورے پر آئے اور جب ان کا سامان لانے والے اونٹ دریائے بور سے جنگل والی سڑک پر پہنچے تو ان کے سامنے ہی سڑک پرشیر نے ایک گائے شکار کی ہوئی تھی۔ اونٹوں کی آمد اور انسانی شور سے گھبرا کر شیر نے گائے کو سڑک پر چھوڑا اور خود جست لگا کر جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ میاں بیوی ہمارے برآمدے میں صبح سویرے کافی پی رہے تھے کہ اونٹوں والےبندوں نے آ کر گائے کی ہلاکت کے بارے بتایا۔ مسز سمیدیز کو شیر کے شکار کا بہت شوق تھا، سو میں اپنے دو ملازمین کے ساتھ ان کے لیے مچان بنانے چل پڑا۔ جب مچان بن گئی تو میں نے انہیں بلوا بھیجا اور انہیں مچان پر بٹھا کر میں نے ان کے ساتھ فارسٹ گارڈ کو بھی بٹھایا اور خود سڑک کے کنارے ایک درخت پر بیٹھ گیا تاکہ شیر کی آمد پر اس کی تصویر بنا سکوں۔
چار بج گئے تھے۔ ہم ابھی نصف گھنٹہ ہی بیٹھے تھے کہ کاکڑ اس سمت سے بولنے لگا جہاں مجھے علم تھا کہ شیر لیٹا ہوا ہے۔ اچانک سڑک پر لالو نمودار ہوا۔ سڑک پر جہاں گائے ہلاک ہوئی تھی، اس نے زمین کو بغور سونگھا اور خون سے بنا تالاب بھی دیکھا اور گھسیٹنے کے نشانات پر چل پڑا۔ جب اس نے مردہ گائے دیکھی تو اس کے گرد چکر لگایا اور سموں سےمٹی اکھاڑتا رہا۔ پھر اس نے سڑک کے کنارے کا رخ کیا اور غصے سے پھنکارنے لگا۔ کیمرے کو ایک ٹہنی سے باندھ کر میں نیچے اترا او ربمشکل تمام لالو کو گاؤں کے کنارے چھوڑ آیا۔ ابھی میں دوبارہ اپنی شاخ پر بیٹھا ہوں گاکہ لالو پھر پہنچ گیا۔ اس بار مسز سمیدیز نے فارسٹ گارڈ کو بھیجا کہ وہ لالو کو بھگائے۔ جب وہ بندہ میرے درخت کے نیچے سے گزرا تو میں نے اسے کہا کہ وہ دریائے بور کے پل کو عبور کر کے دوسرے کنارے پر ہاتھی کے ساتھ رک جائے۔ یہ ہاتھی بعد میں مسز سمیدیز کو لانے کے لیے روکا گیا تھا۔ کاکڑ کچھ دیر ہوئی، خاموش ہو گیا تھا اور مچان سے چند گز پیچھے جھاڑیوں سے جنگلی مرغ بولنے لگے۔ اس جانب اپنا کیمرہ کیا تو دیکھا کہ مسز سمیدیز نے رائفل سیدھی کی اور عین اسی وقت لالو تیسری بار نمودار ہوا (بعد میں ہمیں علم ہوا کہ جب لالو کو دریا کے دوسری جانب بھیجا گیا تو وہ چکر کاٹ کر پھر دریا کو عبور کر کے جنگل میں غائب ہو گیا تھا)۔ اس بار لالو دوڑتا ہوا گائے کی لاش تک پہنچا اور شیر کی بو سونگھ کر یا اسے دیکھ کر اس کا پارہ مزید اونچا ہو گیا اور اس نے زور سے پھنکارتے ہوئے جھاڑیوں پر حملہ کیا۔ اس نے تین بار حملہ کیا۔ ہر بار پھر الٹے قدموں واپس لوٹ کو سر کو جھکا کر اور سینگ آگے کر کے پھر حملہ کیا۔ میں نے بھینسوں کو شیر بھگاتے دیکھا ہے اور ایک مویشیوں کو بھی تیندوے بھگاتے دیکھے ہیں، مگر ہمالیہ کے ریچھ کے علاوہ کسی اور اکیلے جانور کو شیر کو اس کے شکار کردہ جانور پر سے بھگاتے نہیں دیکھا۔ اب لالو یہی کام کر رہا تھا۔
لالو کی بہادری اپنی جگہ، مگر شیر سے اس کا کوئی جوڑ نہیں تھا۔ اب شیر کا غصہ بہت بڑھ گیا تھا اور لالو کی پھنکاروں کا جواب دھاڑ سے دے رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ اگر لالو کو کچھ ہو گیا تو شیر سنگھ کتنا اداس ہوگا، میں لالو کو ہٹانے کے لیے اترنے لگا تھا کہ مسز سمیدیز نے انتہائی کشادہ دلی سے شیر کے شکار کا فیصلہ ترک کر دیا۔ اس لیے میں نے ہاتھی کو بلانے کے لیے مہاوت کو آواز دی۔ لالو جب میرے پیچھے چلا تو بہت آرام سے آ رہا تھااور ہم سیدھا اس کے باڑے پہنچے جہاں شیر سنگھ اسے باندھنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اگر شیر حملہ کر دیتا تو لالو کا بچنا امرِ محال تھا۔ شیر اس رات اور اگلی شام کو بھی گائے سے پیٹ بھرتا رہا اور مسز سمیدیز نے ایک بار پھر شکار کی ناکام کوشش کی۔ اس دوران میں نے شیر کی فلم بھی بنا لی جو میرے قارئین میں سے کئی نے دیکھی ہوگی۔
اس وڈیو میں شیر ڈھلوان سے اتر کر چھوٹے تالاب سے پانی پی رہا تھا۔ یہ جنگل شیر سنگھ کے کھیل کا میدان تھا اور یہ جنگل میرا بھی کھیل کا میدان رہ چکا تھا اور دیگر لڑکوں کا بھی، اور ہمیں اس سے زیادہ کہیں اور مزہ نہیں آیا۔ ذہین اور متجسس ہونے کی وجہ سے جنگل کے بارے اس کا علم وسیع تھا۔ اس کی نگاہ سے کچھ بھی نہیں بچ سکتا تھا اور اپنے نام والے جانور یعنی شیر کی طرح نڈر تھا۔ شام کو ہم سیر کرنے کے لیے دریائے بور کے دوسری جانب تین سڑکوں میں سے کسی ایک پر چل پڑتے تھے۔یہ سڑکیں مراد آباد، کوٹا اور رام نگر کو جاتی تھیں۔ اکثر غروبِ آفتاب کےوقت ہم شیر سنگھ کو دیکھنے سے پہلے سن لیتے تھے کہ وہ اپنی بلند اور صاف آواز میں گاتا ہوا مویشی واپس لا رہا ہوتا تھا۔ مسکراتے ہوئے ہمیشہ وہ ہمیں سلام میں پہل کرتا اور ہمیشہ ہی اس کے پاس بتانے کو کچھ نہ کچھ خاص ہوتا۔
ایک بڑے شیر کے پگ اسے صبح کو کوٹا سے نیا گاؤں کی جانب جاتے ہوئے دکھائی دیے اور دوپہر کو یہی شیر دھونی گڑھ کے نیچے کی جانب دھاڑ رہا تھا۔‘ ‘میں نے سریاپانی کے نزدیک سینگ ٹکرانے کی آواز سنی اور درخت پر چڑھ کر دیکھا تو دو نر چیتل سینگ لڑا رہے تھے۔ ایک کے سینگ تو بہت بڑے تھے اور خوب پلا ہوا تھا۔ میں نے بہت دن سے گوشت نہیں کھایا۔‘ ‘میرے ہاتھوں میں کیا ہے؟‘ اس کے الجھے بالوں پر بڑے بڑے پتوں میں کچھ چھپا ہوا تھا جو اس نے چھال سے لپیٹ کر یکجا کیے ہوئے تھے۔ ‘میں نے سور کی ران اٹھائی ہوئی ہے۔ میں نے درخت پر بیٹھے چند گِدھ دیکھےپاس جا کر دیکھا تو پچھلی رات تیندوے کا شکار کردہ سور دکھائی دیا جس سے تیندوا اپنا پیٹ بھر چکا تھا۔ اگر آپ تیندوے کا شکار کھیلنا چاہیں تو وہاں لے جاؤں؟‘ ‘آج میں نے ہلدو کے پرانے اور کھوکھلے تنے میں شہد کا چھتہ دیکھا۔ میں آپ کے لیے شہد لایا ہوں۔‘ اس کے ہاتھوں میں کانٹوں سے پروئے ہوئے چوڑے پتوں پر برف جیسا سفید چھتا رکھا تھا۔ پھر میرے ہاتھ میں رائفل دیکھ کر اس نے مزید کہا۔ ‘میں اپنا کام پورا کر کے یہ شہد آپ کے گھر پہنچا دوں گا کہ ابھی اگر آپ کو راستے میں کاکڑ یا سور دکھائی دیا تو آپ اس پر گولی نہیں چلا سکیں گے۔‘ ہلدو کے درخت سے چھتے کو اپنی چھوٹی کلہاڑی سے کاٹتے ہوئے اسے دو گھنٹے تو لگ ہی گئے ہوں گے اور اس نے مکھیوں کے خوب ڈنگ کھائے تھے کہ دونوں ہاتھ خوب سوجے ہوئے تھے اور ایک آنکھ بھی سوجن کی وجہ سے بند تھی۔ مگر اس بارے اس نے کچھ نہیں کہا اور اگر میں کچھ کہتا تو اسے شرمندگی ہوتی۔
شام کو جب ہم کھانا کھا رہے تھے تو وہ خاموشی سے پیتل کی ٹرے میں چھتا لیے کمرے میں داخل ہوا۔ ٹرے کو خوب چمکایا گیا تھا اور وہ سونے کی طرح دمک رہی تھی۔ پھر اس نے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے دائیں کہنی کو چھو کر متروک ہوتے ہوئے روایتی طریقے سے سلام کیا۔ اس شاندار تحفے کو میز پر رکھ کر وہ مڑا اور دروازے میں جا کر رکا اور نیچے دیکھتے اور پیر کے انگوٹھے سے قالین کھرچتے ہوئے بولا: ‘اگر آپ صبح پرندوں کے شکار پر جا رہے ہوں تو میں مویشیوں کو کنٹھی کے ساتھ بھیج کر آپ کے ساتھ شکار پر چلوں گا۔ مجھے علم ہے کہ بہت سے پرندے کہاں ملیں گے۔‘گھر کے اندر وہ ہمیشہ جھجھکتا تھا اور اس کی آواز ہکلانے لگتی تھی جیسے بہت سارے الفاظ اس کے منہ میں پھنس گئے ہوں۔
پرندوں کے شکار پر شیر سنگھ کے جوہر خوب کھلتے۔ ہم سب اس شکار سے لطف اندوز ہوتے تھے کہ نہ صرف شکار کی سنسنی ہوتی تھی بلکہ اکثر ہر لڑکا ایک آدھ پرندہ اپنے ساتھ گھر بھی لے جاتا۔ دوپہر کو ہم کھانا کھانے رکتے جو ہمارا ملازم لے کر آتا۔ کھانے میں محض تازہ مٹھائیاں اور بھنے چنے ہوتے۔
جب میں مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا تو شیر سنگھ نے دیگر بچوں کے ساتھ ہانکا شروع کیا اور سب سے اونچی آواز شیر سنگھ کی تھی۔ جب کوئی پرندہ اڑتا تو وہ چلا کر مجھے بتاتا کہ صاحب، پرندہ آ رہا ہے، پرندہ آ رہا ہے۔ جب کوئی بھاری جانور جھاڑیوں میں بھاگتا تو اس کی آواز سنتے ہی وہ اپنے ساتھیوں کو بتاتا کہ ڈرو مت، یہ چیتل، سانبھر یا سور تھا۔ دن بھر ہم گھاس کے دس یا بارہ قطعوں کا ہانکا کرتے اور دس بارہ مور اور جنگلی مرغ شکار ہو جاتے اور اکثر دو تین خرگوش اور چھوٹا سور یا سیہ بھی اکثر ہاتھ لگ جاتے۔ دن کے اختتام پر شکار کو شکاریوں اور ہانکے والوں میں بانٹا جاتا اور اگر کم شکار ہاتھ لگتا تو صرف ہانکے والوں کو شکار ملتا۔ جب شیر سنگھ دن کے اختتام پر خوبصورت مور کو کندھے پر لٹکائے گھر جا رہا ہوتا تو اس سے زیادہ خوش اور کوئی نہیں ہوتا تھا۔
پنوا کی شادی ہو گئی تھی اور وہ وقت قریب تھا کہ شیر سنگھ کو گھر سے نکلنا پڑتا کہ چھ ایکڑ کی زمین دو بھائیوں کے لیے ناکافی ہوتی۔ مجھے علم تھا کہ اس گاؤں سے اور ان جنگلوں سے شیر سنگھ کو کتنی محبت ہے اور انہیں چھوڑتے ہوئے اسے کتنی تکلیف ہوگی، میں نے سوچا کہ اسے تربیت کے لیے اپنے ایک دوست کے پاس کاٹھ گودام رکھوا دوں گا۔ اس دوست کا گیراج بھی تھا اور نینی تال کے لیے اس کی کاریں بھی چلتی تھیں۔ میرا ارادہ تھا کہ تربیت مکمل ہونے پر شیر سنگھ ہماری کار چلائے گا اور سردیوں میں میرے ساتھ کالا ڈھنگی شکار پر جائے گا اور گرمیوں میں جب ہم نینی تال جائیں گے تو وہ ہمارے گھر اور باغیچے کا خیال رکھے گا۔ جب میں نے اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو خوشی کے مارے اس کی زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔ اس طرح اسے اپنے محبوب جنگلات اور گاؤں کو چھوڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی کہ وہ یہاں سے کبھی باہر نہیں گیا تھا۔
انسان زندگی میں بہت سارے منصوبے بناتا ہے اور جب وہ پورے نہ ہوں تو تکلیف اور پچھتاوا بھی ہوتا ہے۔ نومبر میں جب ہم کالاڈھنگی لوٹتے تو شیر سنگھ کی تربیت شروع ہونی تھی۔ اکتوبر میں اسے وبائی ملیریا لاحق ہوا جو نمونیا میں تبدیل ہو گیا اور ہماری آمد سے چند روز قبل وہ مر گیا۔ بچپن سے وہ دن بھر گانے کا عادی تھا اور ہمیشہ خوش رہتا۔ کون جانے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو اس بدلتی ہوئی دنیا میں بھی وہ اتنا ہی خوش ہوتا جتنا اپنی مختصر زندگی کے ابتدائی سالوں میں خوش رہا۔
ہٹلر کی جنگ میں کھوئی ہوئی صحت کی بحالی کی خاطر جانے سے قبل میں نے تیسری بار اپنے مزارعین کو جمع کیا اور بتایا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اب وہ ان زمینوں کے مالک بن جائیں اور گاؤں کے امور کو خود سنبھالیں۔ پنوا کی ماں اس بار مزارعین کی نمائندگی کر رہی تھی۔ جب میں بات پوری کر کے بیٹھا تو وہ کھڑی ہوئی اور بولی: ‘آپ نے ہمیں بیکار بلایا ہے۔ ہم آپ کو بہت مرتبہ بتا چکے ہیں کہ ہم آپ کی زمین نہیں لیں گے کیونکہ اگر ہم نے زمین لے لی تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم آپ کے ملازم نہیں رہے۔ اب صاحب، اس سور کا کیا کیا جائے؟ اس شیطان کی اولاد نے دیوار پر چڑھنا سیکھ لیا ہے اور میرے آلو کھائے جا رہا ہے۔ پنوا اور دیگر شکاری تو اسے مار نہیں سکتے اور میں ساری رات بیٹھ کر ٹین کھڑکانے سے بیزار آ گئی ہوں۔‘
میگی اور میں ایک فائر ٹریک پر چل رہے تھے جو پہاڑوں سے آتا ہے اور ہمارا کتا ڈیوڈ ہمارے پیچھے تھا کہ ‘شیطان کی اولاد‘ سور جو اب بوڑھا ہو چکا تھا اور جسم میں چھرے ہی چھرے تھے، راستے کو ہمارے سامنے عبور کرنے لگا۔ اس کا باپ یعنی ‘شیطان‘ کئی برس قبل ساری رات جاری رہنے والی لڑائی میں شیر کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا۔
سورج غروب ہو چکا تھا اور فاصلہ زیادہ یعنی تین سو گز تھا، مگر چونکہ سور کا رخ گاؤں کی جانب تھا، سو گولی چلانے کی معقول وجہ تھی۔ میں نے فاصلے کی پتی چڑھائی اور رائفل کو درخت کے تنے پر رکھ کر نشیب کے کنارے پر سور کے رکنے کا انتظار کیا۔ جب میں نے گولی چلائی تو سور نے گڑھے میں جست لگائی اور پوری رفتار سے دوسرے کنارے سے نکل کر بھاگا۔ ‘کیا گولی خطا گئی؟‘ میگی نے پوچھا اور ڈیوڈ کی آنکھوں میں یہی سوال تھا۔ فاصلے کے اندازے میں غلطی کے سوا اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی کہ گولی کیوں خطا گئی ہوگی کہ میرے سفید رنگ والے دیدبان سور کی کالی جلد پر صاف دکھائی دے رہے تھے اور درخت پر رکھنے کی وجہ سے ہاتھ کی جنبش بھی ممکن نہیں تھی۔ خیر، گھر جانے کا وقت ہو رہا تھا اور سور جس راستے پر چل رہا تھا، ہم نے اسے پر گاؤں جانا تھا۔ اس لیے ہم اس جگہ کا جائزہ لینے چل نکلے۔ سور کے بھاگنے کے مقام پر اس کے کھروں کے واضح نشانات تھے اور نشیب کی دوسری جانب جہاں وہ نکلا تھا، وہاں خون دکھائی دیا۔ دو سو گز دور اسی سمت میں گھنی جھاڑیاں تھیں۔ چونکہ خون کے نشانات کافی زیادہ تھے، میں نے سوچا کہ صبح سویرے آ کر اس کی لاش تلاش کروں گا۔ اگر وہ زندہ بھی ہوتا تو کوئی فرق نہ پڑتا کہ میگی ساتھ نہ ہوتی اور گولی چلانے کے لیے روشنی بھی بہتر ہوتی۔
پنوا نے گولی کی آواز سنی تھی اور پُل پر میرا منتظر تھا۔ اس کے سوال پر میں نے بتایا: ‘ہاں، اسی بوڑھے سور پر گولی چلائی تھی اور خون کے نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ زخم کاری لگا ہوگا۔ کل صبح یہیں ملو تو میں تمہیں وہ جگہ دکھاؤں گا اور دن کو جا کر وہ دیگر ساتھیوں سمیت سور کی لاش لے آئے۔‘ اس نے پوچھا: ‘میں بوڑھے حوالدار کو لاؤں؟‘ میں نے اجازت دے دی۔ بوڑھا حولدار گورکھا تھا جو فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد پولیس میں کام کرنے لگا اور اس سے پچھلے سال ریٹائر ہوا تھا اور پورا گاؤں اس کی عزت کرتا تھا۔ اسے میں نے رہنے کے لیے جگہ اور زمین دی، جہاں وہ اپنی بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ آباد ہو گیا تھا۔ دیگر گورکھوں کی مانند اسے بھی سور کے گوشت سے انتہائی رغبت تھی اور چاہے جس کا حصہ بھی کم پڑ جاتا، حولدار کو اس کا حصہ ہمیشہ ملتا۔
اگلی صبح پنوا اور حوالدار پُل پر منتظر ملے۔ مویشیوں کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں پچھلی شام خون دکھائی دیا تھا۔ اس جگہ سے ہم خون کے واضح نشانات پر چل پڑے جو سیدھے انہی گھنی جھاڑیوں کو جا رہے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو جھاڑیوں کے کنارے پر روکا کہ ریچھ کے علاوہ سور واحد جانور ہے زخمی ہونے کے بعد انسان پر حملہ کر کے اسے گرانے کے بعد مزید بھنبھوڑتا ہے۔ اسی وجہ سے زخمی سور اور بالخصوص جس کے دانت بڑے ہوں، ہمیشہ احتیاط سے پیچھا کرنا چاہیے۔ جہاں میرا اندازہ تھا، سور وہیں جا کر رکا مگر مرا نہیں۔ اگلی دن صبح سویرے اس جگہ کو چھوڑ کر آگے گیا۔ میں نے پنوا اور حوالدار کو سیٹی بجا کر بلایا اور ہم تلاش کرنے چل پڑے۔
یہ راستہ ہمیں فائر ٹریک کو لے گیا جہاں سمت سے اندازہ ہو گیا کہ سور کا رخ پہاڑی کی دوسری جانب والے گھنے جنگل کی طرف ہے اور میرا اندازہ تھا کہ وہ پچھلی شام وہیں سے نکل کر آیا ہوگا۔ صبح کو بننے والی خون کی لکیر پتلی تھی اور جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے، وہ مزید پتلی ہوتی گئی اور درختوں کے جھنڈ کو پہنچ کر بالکل ہی ختم ہو گئی۔ اس جگہ پتے گرے ہوئے تھے جنہیں ہوا نے الٹ پلٹ دیا تھا۔ اس جگہ انتہائی خشک گھاس تھی جو کمر تک اونچی تھی۔ چونکہ میرا اندازہ تھا کہ سور کا رخ پہاڑی کے دوسری جانب والے گھنے جنگل کو ہے، سو میں نے سوچا کہ گھاس کے دوسرے سرے سے جا کر مزید نشانات اٹھاتا ہوں۔
حوالدار کچھ پیچھے رہ گیا تھا جبکہ پنوا میرے عین پیچھے چل رہا تھا۔ ابھی ہم چند گز ہی گئے ہوں گے کہ میری جرابیں ایک خاردار جھاڑی میں الجھ گئیں۔ جتنی دیر میں کانٹوں سے جرابیں چھڑاتا، پنوا اس جھاڑی کا چکر کاٹ کر دائیں جانب چند گز دور چلا گیا۔ ابھی میں کانٹوں سے چھوٹ کر سیدھا ہو ہی رہا تھا کہ گھاس سے زخمی سور گولی کی طرح نکلا اور سیدھا پنوا پر جھپٹا جس نے سفید رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی۔ پھر میں نے وہی کچھ کیا جو میں ہمیشہ خطرناک شکار پر جاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بتاتا آیا ہوں کہ اگر مجھ پر کوئی زخمی جانور حملہ کرے تو وہ یہی کچھ کریں۔ میں نے رائفل کی نالی ہوا میں اٹھا کر اور زور سے شور کرتے ہوئے لبلبی دبا دی۔
اگر کانٹوں میں الجھ کر میں یہ چند سیکنڈ نہ گنواتا تو سب ٹھیک رہتا کہ میں پنوا تک پہنچنے سے قبل ہی سور کو ہلاک کر لیتا۔ مگر ایک بار جب سور اس کے قریب پہنچ گیا تو پھر میرا کام محض مداخلت کرنا تھا تاکہ سور پنوا پر حملے سے باز رہے۔ سور پر گولی چلانے سے پنوا کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو جاتا۔ جب میری رائفل سے نکلی گولی میل بھر دور گر رہی تھی تو پنوا کے منہ سے ‘صاحب‘ چیخ کی طرح نکلا اور وہ گھاس میں گر گیا اور سور سیدھا اس پر تھا۔ مگر رائفل کا دھماکہ سنتے ہی سور مڑا اور سیدھا میری جانب آیا۔ قبل اس کے کہ میں اعشاریہ 275 بور کی رائفل سے چلا ہوا کارتوس نکال کر نیا بھرتا، سور مجھ تک پہنچ گیا۔ رائفل سے دائیاں ہاتھ ہٹا کر میں نے سامنے پھیلایا تو جونہی میری ہتھیلی سور کے ماتھے سے لگی، سور وہیں رک گیا۔ سور اتنا بڑا تھا کہ گھوڑا گاڑی کو بھی آسانی سے الٹ سکتا تھا، مگر شاید میرا وقت نہیں آیا تھا۔ سور کا سر مسلسل ہل رہا تھا اور وہ ہوا کو کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے ہاتھ کی جلد زخمی ہو گئی۔ پھر بغیر کسی وجہ کے سور مڑا اور دوڑا ہی تھا کہ میں نے دو گولیاں اس کے جسم میں اتار دیں۔ سور سیدھا نیچے گرا اور مر گیا۔
اس ایک چیخ کے بعد سے پنوا بالکل خاموش اور بے حس و حرکت پڑا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ میں اس کی ماں کو کیا جواب دوں اور وہ مجھے کیا کہے گی، میں خوف سے کانپتا ہوا پنوا کے قریب گیا تو توقع تھی کہ اس کا سارا جسم کٹا ہوا ہوگا۔ پنوا پشت کے بل لیٹا ہوا تھا اور مجھے یہ دیکھ کر انتہائی سکون ملا کہ اس کے سفید کپڑوں پر خون کا کوئی نشان نہیں تھا۔ میں نے اسے کندھے سے ہلایا اور پوچھا کہ کیسا ہے اور کہاں چوٹ لگی ہے۔ لیٹے لیٹے اس نے انتہائی کمزوری سے کہا کہ وہ مر چکا ہے اور اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ میں نے آہستہ سے اسے اٹھا کر بٹھایا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ میرے سہارے کے بغیر بھی بیٹھنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اس کی کمر پر ہاتھ پھیر کر میں نے تسلی کی کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی نہیں ٹوٹی اور پھر پنوا نے خود اپنا ہاتھ پھیر کر بھی تسلی کی۔ پھر اس نے مڑ کر اس دو یا تین انچ موٹی جڑ کو دیکھا جس پر وہ گرا تھا۔ شاید جب سور نے اسے گرایا تو وہ بیہوش ہو گیا تھا اور جب ہوش آیا تو پیٹھ کے نیچے اونچی جڑ کی وجہ سے سمجھا کہ اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ اس طرح وہ شیطان کا بیٹا اپنے انجام کو پہنچا اگرچہ اس دوران اس نے ہم دونوں کی جان بھی تقریباً نکال ہی لی تھی۔ میری ہتھیلی کی کھال کو تھوڑا سا نقصان پہنچا اور پنوا کو خراش تک نہ آئی تھی اور اس کے پاس سنانے کو شاندار داستان تھی۔ حوالدار انتہائی عقلمند تھا اور سامنے نہیں آیا تھا۔ پھر بھی اس نے سور کے گوشت سے بڑا حصہ مانگا کہ کیا وہ ہمارے ساتھ نہیں کھڑا تھا؟ اگر ہم مدد مانگتے تو وہ مدد نہ کرتا؟ کیا یہ رواج نہیں کہ شکار پر ساتھ جانے والے افراد کو دوگنا حصہ ملتا ہے؟ ویسے بھی گولی چلتے دیکھنے یا سننے میں کیا فرق ہے کہ سور تو اسی گولی سے مرا تھا؟ اس لیے اسے دوگنا حصہ ملا اور اس کے پاس بھی سنانے کو شاندار داستان تھی۔
پنوا اب اس گھر میں رہتا اور اپنے خاندان کو پالتا ہے جو میں نے اس کے باپ کو بنوا کر دیا تھا۔ کنٹھی کی رخصتی ہو گئی تھی اور شیر سنگھ اگلے جہاں میرا منتظر ہوگا۔ پنوا کی ماں ابھی زندہ ہے اور اگر آپ گاؤں کے داخلی دروازے پر رک کر کھیتوں میں سیر کریں گے تو پنوا کے گھر میں وہ گھر کی دیکھ بھال کرتی ملے گی، حالانکہ دن بھر اسے ہزار کام کرنے ہوتے ہیں، جو وہ رخصتی کے دن سے کرتی آئی ہے۔
جنگ کے دوران جب میں کئی سال باہر رہا تو میگی ہمارے گھر کالاڈھنگی میں رہی اور نزدیک ترین آبادی بھی چودہ میل دور تھی، مگر مجھے اس کے بارے کبھی تشویش نہیں ہوئی کہ وہ میرے دوستوں، ہندوستان کے غریبوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
A Ghazal By Jaun Elia