تری تلاش میں نکلے ہوؤں کا حصّہ ہیں
وہ صورتیں جو نہ معدوم ہیں نہ پیدا ہیں
ہزار ذائقے ہوں گے حیات کے لیکن
ہم ایک ذائقہ ء تلخ سےشناسا ہیں
ہمیں ہو شرم ذرا بھی تو ڈوب مرنے کو
چناب و جہلم و راوی، بہت سے دریا ہیں
عجب تھے سچ کے لئے جان دینے والے بھی
پڑے ہیں شہرِ خموشاں میں پھر بھی زندہ ہیں
یہ گاہ گاہ کا ملنا بھی ہے بہت ورنہ
ہمارے تم ہو بھلا کیا ، تمھارے ہم کیا ہیں
بڑوں کو دیکھ کہ ہوتی ہے سخت حیرانی
یہ کوئی اور نہیں ہیں، ہمارے آبا ہیں
تم اب سے قبل بھی ملتے تھے ، اب بھی ملتے ہو
ہم اب سے قبل بھی تنہا تھے، اب بھی تنہا ہیں
انور شعورؔ