آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا
تم روز و شب جو دست بدست عدو پھرے
میں پائمال گردش ایام ہو گیا
میرا نشاں مٹا تو مٹا پر یہ رشک ہے
ورد زبان خلق ترا نام ہو گیا
دل چاک چاک نغمۂ ناقوس نے کیا
سب پارہ پارہ جامۂ احرام ہو گیا
اب اور ڈھونڈئیے کوئی جولاں گہہ جنوں
صحرا بقدر وسعت یک گام ہو گیا
دل پیچ سے نہ طرۂ پر خم کے چھٹ سکا
بالا روی سے مرغ تہ دام ہو گیا
اور اپنے حق میں طعن تغافل غضب ہوا
غیروں سے ملتفت بت خودکام ہو گیا
تاثیر جذبہ کیا ہو کہ دل اضطراب میں
تسکیں پذیر بوسہ بہ پیغام ہو گیا
کیا اب بھی مجھ پہ فرض نہیں دوستیٔ کفر
وہ ضد سے میری دشمن اسلام ہو گیا
اللہ رے بوسۂ لب مے گوں کی آرزو
میں خاک ہو کے درد تہ جام ہو گیا
اب تک بھی ہے نظر طرف بام ماہ وش
میں گرچہ آفتاب لب بام ہو گیا
اب حرف نا سزا میں بھی ان کو دریغ ہے
کیوں مجھ کو ذوق لذت دشنام ہو گیا
اسماعیلؔ میرٹھی