اردو غزلیاتاسماعیلؔ میرٹھیشعر و شاعری

آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا

اسماعیلؔ میرٹھی کی ایک اردو غزل

آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا

ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا

تم روز و شب جو دست بدست عدو پھرے

میں پائمال گردش ایام ہو گیا

میرا نشاں مٹا تو مٹا پر یہ رشک ہے

ورد زبان خلق ترا نام ہو گیا

دل چاک چاک نغمۂ ناقوس نے کیا

سب پارہ پارہ جامۂ احرام ہو گیا

اب اور ڈھونڈئیے کوئی جولاں گہہ جنوں

صحرا بقدر وسعت یک گام ہو گیا

دل پیچ سے نہ طرۂ پر خم کے چھٹ سکا

بالا روی سے مرغ تہ دام ہو گیا

اور اپنے حق میں طعن تغافل غضب ہوا

غیروں سے ملتفت بت خودکام ہو گیا

تاثیر جذبہ کیا ہو کہ دل اضطراب میں

تسکیں پذیر بوسہ بہ پیغام ہو گیا

کیا اب بھی مجھ پہ فرض نہیں دوستیٔ کفر

وہ ضد سے میری دشمن اسلام ہو گیا

اللہ رے بوسۂ لب مے گوں کی آرزو

میں خاک ہو کے درد تہ جام ہو گیا

اب تک بھی ہے نظر طرف بام ماہ وش

میں گرچہ آفتاب لب بام ہو گیا

اب حرف نا سزا میں بھی ان کو دریغ ہے

کیوں مجھ کو ذوق لذت دشنام ہو گیا

اسماعیلؔ میرٹھی

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button