- Advertisement -

باہر نہیں جاسکتے تو اپنے اندر چلتے ہیں

شہزاد نیّرؔ کی اردو نظم

باہر نہیں جاسکتے تو اپنے اندر چلتے ہیں ۔ ۔

وہ آنکھیں بند رکھتا ہے!

پرانا، برگزیدہ اور گھنا چَھتنار۔۔۔۔ اک برگد
وہ سایہ ہے کہ جس کے جسم پر
یک رنگ پیراہن میں
اک بھی دھوپ کی کترن نہیں ملتی
اسی سائے میں اک مفلوج تن رکھا ہے
سر گھٹنوں میں ہے
اور پاؤں چکنی سرخ مٹی میں
بہت بے بس نگاہوں سے
فلک پر بھاگتے سورج
سرکتے سائے کو دیکھے
وہاں سے ہٹ نہیں سکتا
مگر اس دھوپ سے کیسے بچائے خود کو
جو بڑھتے ہی آتی ہے
جلا کر راکھ کرنے کو
بدن کو چاٹنے والی !
فلک پر بادلوں کی ایک بھی چھتری نہیں کھلتی
بدن سے سائے کی چادر سرکتی جا رہی ہے
چلچلاتی دھوپ اپنا پھن اٹھاتی ہے
یہ "باہر ” کس قدر سفاک ہے
چھپر نہیں دیتا !
وہ گہری سانس لے کے اپنے "اندر”
کی طرف غوطہ لگاتا ہے
وہ خود اپنے ہی سائے میں
سمٹ کر بیٹھ جاتا ہے

شہزاد نیّرؔ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
محبوب صابر کی اردو نظم