اردو نظمایوب خاورشعر و شاعری

اپنے شہر زاد سے

ایوب خاور کی اردو نظم

مرے شہر زاد!
یہ روز و شب
ترے خد و خال کی نذر ہیں
وہ ہجوم حرف و خیال ہو
کہ یہ آرزوئے وصال ہو
مرا ماضی ہو، مرا حال ہو
جو ابھی نہیں جسے آنا ہے
کوئی عرصۂ مہ و سال ہو
ترے اس جمالِ سخن مثال کی نذر ہیں
مرے شہر زاد
یہ روز و شب ترے خدّ و خال کی نذر ہیں
یہ کیا تم ہو
ذرا اس نظم کے زینے اُتر کر
میرے اندر، اپنے اندر جھانک کر دیکھو
متاعِ شہرِ جاں گر تم نہیں تو کون ہے آخر!
کہ جب تم شبنمیں لہجے میں مجھ سے بات کرتے ہو
تو لگتا ہے کہ جیسے تم مرے دل کو رفو کرتے ہو،خوابِ تازہ کی صورت مرے پندار کے ہر تار کو رنگِ سخن سے مشکبو کرتے ہو، میرے دِل کی رگ رگ سے اُمڈتی دھڑکنوں میں ڈوب کر، میرے لبوں کے لمس میں گوندھے ہوئے نم سے وضو کرتے ہو جانِ جاں!
یہ آخر تم نہیں تو کون ہے!تم ہو
مجھے آنچل کی خوشبو
اور ہاتھوں کی دھنک پوروں کی حدت میں اور اپنی ساحر آنکھوں کی سُبک انداز جھیلوں میں ڈبونے
والے آخر تم نہیں تو کون ہے؟۔ ۔ ۔ تم ہو
ذرا اس نظم کے زینے اُتر کر
میرے اندر، اپنے اندر جھانک کر دیکھو
کہاں میں ہوں کہاں تم ہو!
اور اتنے فاصلے پر ساکت و جامد کھڑے
کیوں اتنے گم سُم ہو
یہ کیا تم ہو!

ایوب خاور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button