اے ساقی! ہے غم کی شام ، ایک اور جام بھر
نہیں اب تئیں آرام! ایک اور جام بھر
مجھے اب تلک ہے لگ رہا خودکشی سے ڈر
مری بزدلی کے نام، ایک اور جام بھر
ملاقات کرنی خود سے! پر ہوش میں نہیں
ابھی خود سے ہے اکب کام ایک اور جام بھر
یہ تہمت لقب کی طرح ہے رندِ بے خبر!
اگر دے کوئی الزام! ایک اور جام بھر
وہ کہتے ہیں تونے خود کو مارا ہے خود زملؔ
وہ تو یونہی ہیں بدنام ایک اور جام بھر
ناصر زملؔ